آزادی صحافت

0
115

تحریر: ناصر بیگ چغتائی

ہم نے یوم مزدور منایا اور ہمارے کئی کاپی ایڈیٹرز کو پتہ نہیں تھا کہ یہ کیا ہے۔ آج یوم آزادی صحافت ہے۔ یہ بھی بہت سے “صحافیوں” کو نہیں پتہ کہ دنیا اور خاص طور سے پاکستان میں یہ تھوڑی بہت آزادی کتنی قربانیوں کے بعد حاصل ہوئی اور ہم اسے کس طرح رگڑ کر بد نما بنا ریے ہیں۔

یہ پوری کہانی ایوب خان کے پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس سے پیکا ایکٹ اور پیکا آرڈیننس تک کی ہے۔ صحافیوں اور سول سوسائٹی نے آزادی صحافت کے لئے بڑی جدوجہد کی۔ ضیا نے اخبارات بند کیے تو مزدور کسان بھی صحافیوں کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یہ کمال کی کامیاب جدوجہد تھی جس پر کتابیں لکھی گئیں۔ میری سب سے بڑی جنگ، جدوجہد میں مصروف احفاظ الرحمن کی ضخیم کتاب ہے۔

اس تمام جدوجہد کے باوجود 2017 سے ایک تبدیلی آتی ہے جب چینلز اور اخبارات کی وابستگی سامنے آتی ہے۔ اخبارات میں ایڈیٹر پہلے ہی اخبار بدر تھا چینلز میں ڈائریکٹر کو بھی مذاق بنا دیا گیا۔ بعض چینلز میں تو ان پڑھ اونر ہی “خبر” کے بارے میں ہدایات دینے لگے، پروگرامنگ میں براہ راست مداخلت ہوئی چینلز کی غیر وابستگی پوری طرح ختم ہوگئی جس طرح کہا جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا بینچ دیکھ لو ایسے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ کون سا چینل کس کے حق میں ہے اور یہ خودکشی ہے۔

سوشل میڈیا نے ایک ادھم مچا رکھا ہے۔ ہر افواہ خبر بنادی جاتی ہے اور بعض چینلز بھی سوشل میڈیا سے غلط خبریں اٹھا کر یہ ثبوت دیتے ہیں کہ نیوز روم اور ڈائریکٹر نیوز متعلق نہیں ریے۔
اصل صحافیوں(بڑے اینکر یا ہوسٹس نہیں) کی مشکلات کا کسی کو علم نہیں۔ ان کی تنخواہوں میں کٹوتی در کٹوتی ہوئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ وہ دوسری نوکری کے بغیر گھر نہیں چلا سکتے پھر انہیں تنخواہیں بھی وقت پر نہیں ملتیں۔ یہ ایک المناک صورتحال ہے کہ اخبارات کے لئے کم سے کم اجرتوں کے قانون پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ چینلز میں تنخواہوں کا کوئی ڈھانچہ ہی نہیں۔

پاکستان میں سوشل میڈیا ہندوستان کے برعکس بے مہار ہے۔ بے سونڈ کا ہاتھی ہے۔ ہندوستان میں درجنوں آزاد نیوز ویب سائٹس اخبارات سے زیادہ مقبول ہیں۔ وہ چینلز کے لئے خطرہ بن رہی ہیں کیونکہ انہیں کھرے صحافیوں نے شروع کیا ہے۔ ان پر چینلز کی با نسبت سرکاری اثر کم ہے۔

آج ان تمام مسائل کے باوجود کئی شعر یاد آریے ہیں۔ عزم و حوصلے کے۔۔ ۔
میرے ہاتھ میں قلم پے میرے ذہن میں اجالا
یا استاد محترم خالد علیگ کا کمال شعر
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت نرالی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا۔۔۔

اچھی اور واقعی صحافت کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے لئے آزادی صحافت کی جدوجہد کہیں نہ کہیں جاری ہے۔ مراد یہ ہے آزادی صحافت مالکان کے لئے نہیں ہونا چاہئے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں