ہم محسنوں کو یاد نہیں کرتے

0
156

تحریر: محمد عثمان یسین

وہ ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ میں زیر تعلیم تھا غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل نوجوان جذبہ حب الوطنی سے سرشار سات سمندر پار بھی اپنے ملک کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے حالات سے باخبر اور خوفزدہ تھا۔ آخر کار اس نوجوان کو تاریخ کا وہ بد ترین دن بھی دیکھنا ہی پڑا جب اس کے ملک کی فوج نے دشمن فوج کے آگے ہتھیار ڈال دیے جو تا ریخ کی بد ترین شکست ثابت ہوئی اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ اس نوجوان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور پھوٹ پھوٹ کر رویا جو اس کی زندگی میں پہلی بار دل بھر کے رونا تھا مسلسل کئی دن بغیر کچھ کھائے پیئے، غم کی حالت میں گزار دیے اور فرط جزبات میں آکر اپنا ٹی۔ وی بھی توڑ ڈالا۔ مگر وہ ہمت نہ ہارا اس نے اپنی بے بسی کو طاقت میں بدلا اور فیصلہ کیا جو ہوگیا وہ تلخ ماضی تھا مگر اب اپنے وطن عزیز پر آنچ نہیں آنے دے گا۔ پھر چشم فلک نے وہ دلفریب منظر بھی دیکھا کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بن چکا تھا پوری دنیا کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دنیا کے جس خطے میں بھی پاکستانی موجود تھا وہاں مبارک بادیں دینے والوں کی لائنیں لگ گئی، یوں پاکستان دنیا کی ساتویں عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن کر ابھرا اور یوں وہ نوجوان قوم کا ہیرو بن گیا جسے آج تاریخ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے نام سے جانتی ہے۔

داکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936ء کو بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کرکے کراچی رہائش پذیر ہوا۔ آ پ نے ابتدائی تعلیم پاکستان سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ چلے گئے۔ دوران تعلیم آپ نے ہینی نامی لڑکی سے شادی کرلی جو اب ہینی خاں کہلاتی ہیں، جن سے آ پ کی دو بیٹیاں عائشہ خان اور دینا خان ہیں۔ یورپ سے آپ نے مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈیلفٹ سے ماسٹرز آف سائنسز اور بیلجیم کی یونیورسٹی آف لبوؤن سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور اسی دوران آپ نے ہالینڈ ہی میں واقع ایک فرم کے تحت ہالینڈ کے ایک قصبہ “المیو” میں یورنیکوانرچمنٹ پلانٹ میں کام کرنا شروع کر دیا، جس میں گہری دلچسپی لیتے ہوئے آپ نے یورینیم کی آفزودگی کے متعلق اہم معلومات حاصل کر لیں اسی دوران بھارت نے ایٹمی دھماکاکرکے پاکستان پر برتری جتاناشروع کردی تھی جس سے ہر پاکستانی خوفزدہ تھا مگر ڈاکٹر صاحب تقسیم پاکستان کے وقت ہی عزم کرچکے تھے۔ لہذا اب اس عزم کے پورا ہونے کا امتحان شروع ہو چکا تھا آپ نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو خط لکھ کر اپنی ایٹمی صلاحیتیوں کے متعلق آگاہ کیا، جس کے جواب میں بھٹو نے آپ کو پاکستان میں آنے کی دعوت دی جو آپ نے بخوشی قبول کرلی اور یورپ کی شاہانہ زندگی عالیشان تنخواہ چھوڑ کر واپس وطن آکر صرف تین ہزار روپے وظیفہ کے عوض دفاع وطن کی خاطر دن رات ایک کیئے اپنے مشن سے منسلک ہوگئے۔ تاریخ کے مختصر سے دور میں اپنے مشن کی تکمیل کی اور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ جو کام دنیا کے ترقی یافتہ ممالک برطانیہ، امریکہ، جرمنی اور فرانس کے اشتراک نے بیس سال سے زائد عرصہ میں تقریبا بیس کروڑ ڈالر کے اخراجات سے پچیس ہزار سائنسدانوں اور انجئنیر ز نے قائم کیا۔ وہ ایک پسماندہ اور ترقی پذیر ملک کیسے کر سکتا ہے ایک ایسا ملک جو اچھی بائی سائیکل تیار نہ کرسکتا تھا جو ایک سوئی تک نہ بنا سکتا تھا اس ترقی پذیر ملک نے آٹھ سال کے مختصر عرصہ میں ایٹم بم بنالیا۔ یہاں آپ ڈاکٹر صاحب کی غیر معمولی صلاحیتیں ملاحظہ فرمائیں کہ جو آپ کے ڈچ دوست ہالینڈ سے ایٹمی راز حاصل کیے جانے پر آپ کے مخالف تھے بعد میں چھپ چھپ کر ضروری سامان پہنچاتے رہے اور جس سامان کی ضرورت تین سال بعد ہوتی اس کا آرڈر پہلے ہی ایک کی بجائے تین چار جگہوں پر دے دیا جاتا اکثر یہی ہوتا کہ مغربی ممالک اگر کوئی چیز روک کر بے حد خوش ہوتے کہ ہم نے انھیں پکڑ لیا ہے، وہی چیز اسی وقت کراچی بندر گاہ پر اتاری جارہی ہوتی تھی۔

دنیا کی کڑی نگرانی کے باوجود بالآخر 28 مئی 1998 کا سورج عالم اسلام بلخصوص پاکستان کے لیے خوشی کا پیغام لے کر طلوع ہواجس دن ہم نے بھارت کے 5 ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چاغی کے مقام پر7 ایٹمی دھماکے کر کے بھارتی برتری خاک میں ملا دی وہ دن تھا جب مسجد اقصی میں فلسطینی نوجوان بھی اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں کہہ رہا تھا کہ ہم بھی ایٹمی طاقت بن گئے ہیں۔ اب اگر مسجد اقصی اور اس کے باسیوں پر ظلم کیا تو تاریخ سے حرف غلط کی طرح مٹا دیے جائو گے مگر افسوس کے اب وہی مسجد اقصی یہودیوں کے قبضے میں ہے پانچ فرض نمازوں کے ساتھ چھٹی نماز جنازہ معمول بن چکی ہے اور دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان عملی طور پر مدد کرنے سے قاصر ہے کہیں مغربی آقا ہی ناراض نہ ہوجائیں۔

گراں قدر خدمات کی بدولت حکومت پاکستان کی طرف سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو دو مرتبہ 1996-99 میں پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ نشان پاکستان اور 1989 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ کراچی یونیورسٹی نے 1993 میں آپ کو ڈاکٹر آف سائنسز کی اعزازی سند سے نوازا۔ سعودی مفتی اعظم نے آپ کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا اور پاکستان کو خام تیل مفت دینا شروع کر دیا۔ مگر اس کے بعد کیا تھا ہم اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر اتر آئے اور محسن پاکستان کو اسیری میں ڈال کر اپنی بیٹیوں سے دور کرکے امریکی پریشر کی بدولت قومی ٹیلی ویژن پر دنیا سے معافی منگوا کرکے اور کرپشن کے جھوٹے الزامات لگا کر اپنی احسان فراموشی کا حق ادا کر دیا۔  ڈاکٹر صاحب کو زندگی میں ایک بار پھر جی بھر کے رونے پرمجبور کر دیا، آج محسن پاکستان زندگی سے لطف اندوز نہیں بلکہ چند ہزار پنشن پہ گزارہ کر رہے ہیں اور شدید بیمار بھی ہیں حکومت کا کوئی نمائندہ تعزیت کرنے نہیں گیا بلکہ اب ہم اس دن کے انتظار میں بیٹھے نظر آرہے ہیں کہ کس دن محسن پاکستان دنیا سے رخصت ہوں اور ہم ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے نام پر چھٹی منائیں۔ آپ جب یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو تقریبا 28 مئی یوم تکبیر اور ڈاکٹر عبدالقدیرخان کا یکم اپریل یوم پیدائش گزر چکا ہوگا اور آپ قوم کی طرف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بلکہ عالم اسلام کے عظیم ہیرو کی حوصلہ افزائی دیکھیں۔ کسی سرکاری تقریب میں مدعو نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی اخبار میں ان کے نام کا اشاعت خاص شائع ہوگا۔

 حکمران تقریریں کر گزرے ہوں گے کہ ایٹم بم ہم نے بنایا اپوزیشن سارا کریڈٹ نواز شریف اور بھٹو کو دے رہی ہوگی ہر کوئی اپنے اپنے لیڈر کو ایٹم بم کا خالق ثابت کرنے میں مگن ہوگا۔ بلاشبہ 28 مئی کو یوم تکبیر بنانے میں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف اور ذولفقارعلی بھٹو کا کردار نمایاں رہا ہے پوری قوم یکساں مبارک باد کی مستحق ہے مگر اس عظیم ہیرو سمیت پاکستان کی سلامتی کے لیے کوششیں و دعائیں کرنے والے کشمیریوں اور فلسطینیوں کو یادنہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ بلکہ اس محسن کے پیچھے ایک محسنہ کا بھی ہاتھ جس نے ہر مشکل میں ڈاکٹر خا ن کو سہارا دیا پاکستان اور ڈاکٹر کی خاطر اپنا آبائی وطن، ماں باپ اور عزیزواقارب سب کچھ چھوڑ کر دیار غیر میں عظیم مقصد کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ تاریخ اس عظیم عورت کو ہنی خان کے نام سے جانتی ہے جو محسن پاکستان کی بیوی محسنہ پاکستان ہیں، پاکستانیوں یاد رکھنا جو قومیں اپنے محسنوں اور غازیوں کو بھول جایا کرتیں ہیں تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں