خواجہ سرا

0
398

تحریر: صفیہ حیات

خواجہ کو دیکھتے ہی اکثر نامکمل لوگوں کے چہروں پہ تمسخرانہ ہنسی کھلینے لگتی ہے۔ شاید وہ ان کے مکمل پن سے گھبرا جاتے ہیں۔
خواجہ سرا کو دیکھ کر مقدس صحیفوں میں انکا ذکر نہ پاکر مجھے یوں لگا کہ انکا وجود بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کرتا ہے۔
انکا وجود یہ بھی سمجھاتا ہے کہ یہاں کچھ بھی پورا نہیں۔ اس کائنات کے سر بستہ رازوں سے جیسے جیسے پردہ اٹھتا جائے گا۔ بہت سارے بت گرتے جائیں گے۔
سوچ بدلے گی۔ عقیدے، کتابیں اور یقین ٹوٹ کر نئے سرے سے اکملیت اور جامعیت کی طرف گامزن ہونگے۔

ادھورے وقت کے مکمل لوگ
خواجہ سرا!
تم ایک مکمل انسان ہو۔
بہترین تخلیق ہو۔
کیا کمی ہے تم میں جو ہراساں سی دکھائی دیتی ہو
سنومیری دوست
خواجہ سرا!
یہ نتھنی اتار پھینکو
یہ غلامی کی نشانی ہے
نفرت کی نظر کو پیار بھری مسکراہٹ سے بھگادو
وقت کا ہر ہر لمحہ
جب بھی تم چاہو
کہیں بھی جانا چاہو
جائو
زومعنی جملوں کی آوازوں پہ کان مت دھرو
آوازیں کسنے والے تو خود
ادھورے وقت کے
ادھورے لوگ ہیں۔
خواجہ سرا!
تم انسان ہو۔ وقت کے کسی بھی لمحہ باہر نکلو، کام کرو۔ لوگوں سے ملو
کیا باہر پھرنے والے سب دھندہ کرتے ہیں؟
نہیں نا
تو پھر تم کیوں نہیں
تم انسان ہو پورے دل و دماغ کے ساتھ
تم ہوا خوری کے لئے بھی نکل سکتی ہو۔
کسی سے ملاقات کے لئے
کسی دوست کے ساتھ چائے پینے جا سکتی ہو۔
کیا دنیا صرف ان ادھورے لوگوں کی ہے؟
” نہیں “
تم اگر چاہو تو
ارادہ اور محنت سے ان سے آگے نکل سکتی ہو۔ اک ذرا سی جو کمی ہے
اس کی ذمہ دار تم نہیں ہو
لگن سے آگے بڑھو۔
ہاں اگر سب رستے بند ہوں۔ بھوک سے مرنے لگو تو دھندہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ رقص اور گانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
دیکھو ہم جو ہیں نا پورے لوگ
ہم ذہنی پستی کا شکار ہیں۔ ہماری باتیں دل پہ نہ لیا کرو۔ بس ایک زندگی جو ملی ہے
اسے جی بھرکے جی لو۔ اس دنیا کو کچھ بن کے دکھادو۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں