ضمیر کی آواز

0
138

تحریر: علی زمان اعوان

موجودہ وقت میں اگر کراچی کے منتخب ایم این اے ایم پی کراچی پر توجہ دیتے تو آج شہر کی حالت ایسی نہیں ہوتی۔ کراچی کا ترقیاتی بجٹ کہاں خرچ ہوتا ہے نیب اور اینٹی کرپشن کہاں سوئی ہوئی ہے۔ اگر کراچی میں میرٹ پر تعیناتیاں ہوں تو عوام کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

جہاں کمشنر ڈی سی، اے سی مفادات یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر لگیں تو وہاں عوامی مفادات کا قتل عام ہوتا ہے یہی حال کراچی کا ہے۔ گزشتہ روز کشمنر کراچی متعلقہ اضلاع کے ڈی سی اور اے سی کی نااہلیوں کی وجہ سے مہنگائی ناقص اشیاء کی بھر مار کراچی میں عام ہے مگر کوئی بولنے والا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

من مانی قیمتیں وصول کرنا اور ناقص اشیاء دھڑلے سے بیچنا اور بڑے بڑے آفسز میں  بیٹھ کر سب اچھا کی رپورٹ دینا۔ کیا کمشنر کراچی اور تمام ڈی سی اور اے سے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اگر نہیں تو ان پر ہونے والے کروڑوں روپے کے اخراجات کا بوجھ عوام پر کیوں؟۔ ان عہدوں سے عوام کو کیا ریلیف ملتا ہے یا یہ لوگ عوامی مفادات کے لیے کیا کرتے ہیں؟۔

شہر قائد میں ہمیشہ عوامی مفادات کا قتل عام ہوتا ہے اور کسی بھی محکمیں نے سوائے خانہ پری کے کوئی بھی مثبت کردار عوام کیلئے ادا نہیں کیا بلکہ مال بنایا۔ نیچے سے لیکر اوپر سب کو بانٹا اور سب اچھا کی رپورٹ دیکر فائلوں کا منہ بند کر دیا گیا۔

 ملک بھر کی عوام آج جس طرح مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اسی طرح شہر قائد جو کہ پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے اس کے رہنے والے افراد بھی آج بے شمار منصوعی مسائل جو اداروں کی غفلت کی وجہ سے پیدا کردہ ہے بگھت رہے ہیں۔ شہریوں کو کہیں پینے کا پانی نہیں مل رہا تو کہیں ناقص غیر معیاری کھانے پینے کی چیزوں نے ان کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ شہر قائد کی اکثر مارکیٹوں میں غیرمعیاری اشیاء بھری پڑی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سبزیوں کی بات کی جائے گٹر باغیچہ ہو یا کراچی کے ملیر کے علاقے وہاں بھی زہریلے پانی سے سبزیوں کی کاشت ہوتی رہی اور کئی جگہوں پر اب بھی رہی ہے۔ مگر کیا مجال کے آج تک کمشنر کراچی ہو متعلقہ اضلاع کے ڈی سی ہوں یا اے سی ان کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی اور لوگوں کا جانی مالی نقصان روزمرہ کا معمول بنتا جارہا ہے۔ باسی غیر معیاری زہریلے پانی کی سبزیاں کھا کر کراچی کے رہائشی مختلف طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں مگر عوام پر مسلط کیے گئے یہ لوگ اپنی اپنی عیاشیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔

 کمشنر کراچی اور متعلقہ اے سی اور ڈی سی کی بہت سی ذمہ داریاں ٹھنڈے کمروں میں موج مستیاں کرتے گزتی ہیں۔ ناقص اشیاء گراں فروشی ذخیرہ اندوزی جیسے مسائل ہمارے محکموں کی پیداوار ہیں اگر قانون کو فوری حرکت میں لاکر متعلقہ اے سی، ڈی سی اور کمشنر کراچی کاروائی کریں تو کراچی کے شہریوں کوبہت ریلیف مل سکتا ہے۔ مگر ایسا کچھ بھی ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا جہاں میرٹ کی بجائے سیاسی مفادات کو یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی جائے تو وہاں عوامی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کے سودے ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں