ملکہ وکٹوریہ کی اردو اور ” عبدل” سے محبت

0
44

خواب و خیال: آغا نیاز مگسی

پاکستان اور ہندوستان کے وہ لوگ جو اہل اردو ہوتے ہوئے بھی  اردو زبان کو کمتر سمجھتے ہیں ان کے لیے خصوصی توجہ طلب ہے کہ جس وقت برطانیہ کی حکومت آدھی دنیا سے بھی زیادہ حصے پر قائم تھی اور برطانیہ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس دور کے دنیا کی سپر پاور برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ نے اردو زبان سے ٹوٹ کر محبت کی۔ قدیم ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور اردو زبان سے محبت کے باعث ملکہ وکٹوریہ نے 1887 میں  ہندوستان سے 2 نوجوانوں عبدالکریم اور محمد بخش کو خصوصی طور پر اپنے دربار میں اس غرض سے ملازم رکھا کہ وہ  ان کے ذریعے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی جھلک دیکھیں اور اردو زبان سیکھیں۔  ملکہ وکٹوریہ کے حکم پر ہندوستان کی ایک ریاست کے انگریز گورنر سر جان ٹیلر نے آگرہ شہر سے محمد بخش اور عبدالکریم کو لندن بھیجا ۔ ملکہ وکٹوریہ نے ان کو اپنے شاہی دربار میں ملازم رکھ لیا اور ان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کیں ۔ ملکہ نے ان کو ہدایت کی کہ وہ ہندوستانی لباس اور پگڑی پہنا کریں انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ یہ بات باعث حیرت اور دلچسپی کا باعث بھی ہے کہ اس وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ کی حکمران ملکہ وکٹوریہ نے اردو سے بھرپور محبت کا اظہار کیا اور اردو سیکھنے کا عزم کرلیا۔ ملکہ نے عبدالکریم جس کی عمر 24 سال تھی وہ نہایت خوب صورت اور لائق و فائق تھا وہ ایک شہزادے اور نواب کی طرح نظر آتا تھا  اس کو اردو سیکھنے کے لئے اپنا استاد مقرر کر دیا۔

ملکہ وکٹوریہ نے 3 سال کے عرصہ میں اردو زبان لکھنے اور بولنے کا عمل مکمل کرلیا جس کے بعد  ملکہ وکٹوریہ نے اردو میں روزانہ ڈائری لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا اس کا یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا اور عبدالکریم پر بہت مہربان ہو گئی ۔ ملکہ نے عبدالکریم کو لندن کے شاہی محل میں رہنے کے لئے سرکاری رہائش گاہ فراہم کر دی اور اس کے خاندان کے افراد کو بھی لندن بلا لیا اور ان کو رہائش بھی فراہم کر دی۔ عبدالکریم کو اپنے شاہی خاندان کے فرد کی طرح عزت دینے لگی۔ عبدالکریم کو منشی کا لقب بھی دیا اور  آگرہ کے علاقے میں اس کو جاگیر بھی عطا کر دی۔  ملکہ معظمہ نے عبدالکریم کو ترقی دے کر اپنا پرائیویٹ سیکریٹری برائے ہندوستانی امور مقرر کر دیا۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز اور نہایت اہمیت کا حامل عہدہ تھا جو اسے دیا گیا جس پر برطانیہ کے وزیراعظم سمیت بہت سے اعلی عہدے دار ملکہ وکٹوریہ سے ناراض ہو گئے۔ صرف یہی نہیں ملکہ معظمہ نے اپنے تینوں شاہی محل میں عبدالکریم کو رہائش کے لئے مکانات فراہم کر دیئے۔ اردو سے محبت بڑھتے بڑھتے ملکہ وکٹوریہ کو خود  عبدالکریم سے بھی محبت  ہو گئی جس کی بنا پر اس کو پیار سے وہ عبدالکریم کے بجائے ” عبدل” کے نام سے مخاطب کرنے لگی۔ اپنے ایک شاہی محل پر اس نے ” کریم کیرج ” لکھوا دیا۔ ملکہ جہاں بھی بیٹھتی عبدل کو اپنے پہلو میں بٹھاتی حکومتی معاملات میں اس سے مشورے کرتی اور اس کے مشوروں کو اہمیت دیتی تھی۔ اردو اور عبدل سے ملکہ نے انتہائی محبت کے باعث  عبدل کو انگلستان کے سب سے بڑے سول اعزاز C I E ( Copanion of Indian Empire) سے بھی نواز دیا۔   جبکہ لندن میں وہ خود بھی اور اس کے بچے بھی عبدالکریم کے گھر میں جاتے تھے۔ ایک بار ملکہ نے اپنی ایک بیٹی کو خط میں لکھا کہ لندن میں صرف 2 پردہ دار خواتین ہیں ایک عبدالکریم کی بیوی ہے جو بہت خوش شکل ہے ساڑھی پہنتی ہے اور  اپنی خوب صورت آنکھوں کو نیچے رکھتی ہے جبکہ عبدالکریم کی ساس ساڑھی کے بجائے  ریشمی جوڑی دار  کا پاجامہ  پہنتی ہے اور وہ عورت کے بجائے مرد لگتی ہے یہ دونوں عورتیں جب گھر سے باہر نکلتی ہیں تو برقعہ پہنتی ہیں۔  عبدالکریم شاہی محل میں قرآن مجید کی تلاوت بھی کیا کرتا تھا ملکہ نے اس سے قرآن کریم کی تلاوت سننا شروع کر دیا اس سے اس کو بہت خوشی اور دلی سکون  محسوس ہوتا تھا۔

اردو کی دیوانی اور عاشق  ملکہ وکٹوریہ کا 78 سال کی عمر میں 22 جنوری 1901 میں انتقال ہوا۔ وہ 67 سال تک انگلستان کی حکمران اور ملکہ معظمہ رہی۔  وکٹوریہ کے چچا شاہ ولیم چہارم کے انتقال اور اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بھتیجی وکٹوریہ کو 18 سال کی عمر میں برطانیہ کی ملکہ مقرر کیا گیا۔ ملکہ وکٹوریہ کے انتقال کے بعد ایڈورڈ ہفتم کو  برطانیہ کا بادشاہ مقرر کیا گیا۔  ملکہ وکٹوریہ کے انتقال کے فوری بعد برطانوی حکومت نے عبدالکریم کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا وہاں تلاشی کے بعد اس کے گھر سے جو بھی کاغذات اور ملکہ معظمہ اور عبدل کے مابین لکھے گئے خطوط برآمد ہوئے ان کو جلا دیا گیا۔ ملکہ وکٹوریہ کے انتقال کے بعد حالات تبدیل ہونے کے باعث عبدل اپنی فیملی سمیت لندن سے واپس اپنے ملک ہندوستان میں اپنے آبائی شہر آگرہ منتقل ہو گیا۔ عبدالکریم نے آگرہ میں فلاحی کام شروع کر دیئے تھے اور یتیم خانے بھی قائم کیئے تھے۔ عبدالکریم  کا 1909 میں انتقال ہوا اس کے ورثاء نے عبدل کو  آگرہ کے ” پچ کویاں ” قبرستان میں سپرد خاک کر دیا اور اس کے مزار پر ایک گنبد بھی تعمیر کر دیا ۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں