علیم خان کی اگلی سیاست، کامیاب یا ناکام

0
47

تحریر: عمران ملک

علیم خان سابق سینیئر وزیر پنجاب، چیئرمین (سماء ٹی وی و پارک ویو گروپ) کی اگلی سیاست، کامیاب یا ناکام؟

ڈیئر علیم خان، اتنی جلدی عثمان بزدار کیطرح آپکا نام بھی تو ع سے شروع ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے جب علیم خان نے سماء ٹی وی خریدا، اور پھر سینیئر وزیر پنجاب کے عہدے سے مستعفی ہوئے تو انہوں نے پی ٹی آئی کیلئے کیا خدمات انجام دیں اس پر میرا تجزیہ موجود جس میں میں نے اپنے تئیں کہا کے وہ ایک کامیاب بزنس مین ہیں اور شاید سیاستدان کامیاب نہیں ہیں، وہ پی ٹی آئی تحریک کا ایک پلر تھے۔ ان کے بغیر پی ٹی آئی نے جو بڑے بڑے جلسے کیے شاید ان کی خان سے محبت کے بغیر ناں ہو پاتے، پھر ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی ان کو فری ہینڈ دیا گیا، وہ اپنی اور پی ٹی آئی کی کمپیئن ایک بزنس مین کیطرح چلا رہے تھے کیونکہ جب بزنس مین کیمپیئن چلاتا ہے، پیسے لگاتا ہے تو پھر وہ فورا ریٹرن کا سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ علیم خان کو بھی ریٹرن جلد چاہیے تھا، لیکن وہ سیاسی سوجھ بوجھ کو اپنی کمپیئن میں ناں لا سکے اور جب وزیراعلی پنجاب کی بات چل رہی تھی تو ‘ع’ کے لفظ تک وہ جیت چکے تھے، پھر کچھ ان کے پراپرٹی بزنس کے کیسز ان کے وزارت اعلی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ جب ان کا نام وزارت اعلی کیلئے اسلام آباد میں چل رہا تھا تو کئی ٹی وی چینلز پر ان کے نیب میں کیسز کے ٹکرز چلنا شروع ہوگئے، اور پھر دو تین دن ایسی دھما چوکڑی مچی کے قرعہ فال عثمان بزدار کے نام نکل آیا!

علیم خان مانیں یا ناں مانیں ان کی میڈیا ٹیم میڈیا ہینڈل ناں کر سکی اور وہ خود بھی کوئی تسلی بخش جواب ناں دے سکے، وہ ناں تو کوئی جہانگیر ترین کیطرح جہاز اڑا سکے اور ناں ہی کرپشن فری ہونیکا تاثر پیدا کر سکے، پچھلے تین سال میں وہ وزیر خوراک، ہاؤسنگ اور سینیئر وزیر بھی رہے اور تمام وزارتیں خان پر پریشر ڈال کر لیں، لیکن کسی بھی موقع پر وہ ایک فرنٹ لائن وزیر ناں بن سکے، حالانکہ ان کے پاس سینیئر وزیر کا جاندار عہدہ بھی تھا۔ اب انہیں ساڑھے تین سالوں میں ان کا پارک ویو لاہور فیز ٹو سے پھیلتا پھیلتا اسلام آباد بھی جا پہنچا اور وزارت کے ساتھ ساتھ اپنے بزنس کو بھی ملٹی پلائی کرتے رہے، فل پروٹوکول کیساتھ اپنے بزنس پر بھی بھر پور توجہ دیتے رہے، پی ٹی آئی حکومت نے بھی کبھی بھی ان کے بزنسز پر اعتراض ناں کیا، اپنے آپ کو پی ٹی آئی کی سیاست سے لا تعلق کر لیا-

اکثر اوقات ان کے پی ٹی آئی حکومت سے بیزاری کے ٹکرز چلتے، پھر چند دنوں بعد عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کی تصویر چھپتی اور راوی پھر چین ہی لکھتا، لیکن لگتا یوں کے کوئی روح بے قرار ضرور ہے جسے چین نہیں، خان کیخلاف جب اپوزیشن نے پنجے گاڑھنے شروع کیے تو پی ٹی آئی کے ورکرز یہ سوچ رہے تھے کے سب سے پہلے خان سے ناراض ترین اور علیم خان ہی خان حکومت کے دفاع میں کھڑے ہونگے، لیکن ترین صحت کو لیکر لندن جا پہنچے اور علیم خان نے اپنا گروپ لانچ کر دیا، پھر چپکے چپکے لندن یاترا بھی کرلی۔ لندن جا کر وہ خان کی گڈ بکس سے تو نکل گئے، لیکن مسلم لیگ نواز کے وزیراعلی کے امیدوار ناں بن سکے، ترین گروپ نے بھی انھیں مکمل سپورٹ ناں دی، لندن سے واپسی پر بھی وہ متحرک دکھائی ناں دیئے، پھر انہوں نے ایک دن میڈیا کے سامنے بزدار کو لتاڑنے کی کوشش کی، اور یہاں تک کہہ ڈالا کے وزیراعلی کے پاس جو گاڑی ہے وہ تو میرے پاس بھی ہے، جو کہنا ان کے شایان شان بالکل بھی نہیں تھا۔

پی ٹی آئی کے یہ سینیئر ترین وزیر تھے، خان سے ڈائریکٹ رابطے میں بھی ہوتے تھے، اگر کل کلاں الیکشن میں پی ٹی آئی جیتتی تو پنجاب میں وزیراعلی کی چوائس بن سکتے تھے، لیکن کل جب ن لیگ کے حمزہ شہباز شریف کیساتھ کھڑے تھے اور وزارت اعلی کیلیے سپورٹ کر رہے تھے تو مجھے ایسے لگا جیسے انہوں نے ہمیشہ کیلئے اپنے ہاتھوں سے وزارت اعلی کی لکیر مٹا دی ہے، اب اگر پنجاب میں ن لیگ جیتے گی اور یہ لیگ کی سیٹ پر جیت بھی گئے تو پھر کیا سینیئر وزیر ہی بنیں گے؟ اور حمزہ کی وزارت اعلی کے اندر یہ کیسے آزادی کیساتھ کام کر سکیں گے، میں یہی کہوں گا کے علیم خان نے یہ ہلکی سیاسی چال چلی، اور جس طرح پرویز الٰہی نے کہا کے علیم خان کو اب ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کو ہی جاری رکھنا چاہیے، سیاست ان کے بس کی بات نہیں، لیکن آج جو انہوں نے دھماکے دار کانفرنس کی، اس کو شاید اتنی پذیرائی ناں ملتی لیکن چونکہ اب سماء ٹی وی کے مالک ہیں اس لیے اسی زعم میں کافی کچھ بول گئے،خ۔ ہمارے استاد کہا کرتے تھے جو ادارہ بھی چھوڑو ہمیشہ مثبت نوٹ پر چھوڑو تاکہ واپسی کی گنجائش رہے لیکن آج جس طرح وہ پی ٹی آئی سے جدا ہوئے وہ ان کی آنیوالی سیاست میں کیا کوئی بڑی تبدیلی لا سکے گا؟ آپ کیا سمجھتے ہیں؟۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں