میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس نقوی کے کہنے پر لیا گیا از خود نوٹس مسترد کرتا ہوں، جسٹس اطہر من اللہ تفصیلی نوٹ

0
65

اسلام آباد: جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا، فیصلے میں لکھا ہے کہ اس درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں موجودہ سیاسی سیاسی بحران کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دیا، سیاسی بحران عدم اعتماد میں شکست کے بعد عمران خان کے لیڈر آف اپوزیشن کا کردار ادا نہ کرنے سے شروع ہوا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے تفصیلی نوٹ میں لکھا کہ فیصلہ تو 4/3 کا ہی ہے لیکن تین رکنی بینچ نے اقلیت میں ہوتے ہوئے خود کو اکثریت قرار دے دیا۔ میں جسٹس یحی خان آفریدی کے درخواستوں کو مسترد کرنے کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں اور میں نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندو خیل کے فیصلے کو پڑھا ہے۔ ان کے حکمنامہ سے اتفاق کرتا ہوں۔

جسٹس اطہر من نے اللہ نے 22 فروری کے ازخود نوٹس کیس کا 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ازخود نوٹس سمیت تینوں پیٹیشن خارج کی جاتی ہیں۔

ازخود نوٹس میں جسٹس اطہر من اللہ نے دو ٹوک نوٹ میں لکھا کہ فل کورٹ بن جاتا تو مسائل پیدا نہیں ہوتے اور سپریم کورٹ نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ فل کورٹ صوبائی انتخابات کے جھگڑے کو ختم کرسکتا تھا۔ سیاست داں مسائل پارلیمنٹ کے بجائے سپریم کورٹ لاتے ہیں اور ہر بار کورٹ ہار جاتی ہے۔ عدالت سمیت تمام ادارے اپنی انا دور رکھ کر خود شناسی سے کام لیں اور یہ تیسرا موقع پے کہ سپریم کورٹ کو سیاست میں ملوث کیا گیا۔

میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس نقوی کے کہنے پر لیا گیا از خود نوٹس مسترد کرتا ہوں اور سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمے داریاں پوری کرنی چاہیے۔ 24 فروری کے آڈر میں از خود نوٹس مسترد کرچکا تھا اس کی وجہ بھی لکھ دی تھی اور اتفاق کرتا ہوں کہ از خود نوٹس کیس 4 ججوں نے مسترد 3 نے قبول کیا۔ 27 فروری کو چائے کے وقفے میں فیصلہ ہوا کہ میں بینچ میں بیٹھوں گا۔

جسٹس اطہر من اللہ تفصیلی نوٹ میں مذید لکھا کہ‏از خود نوٹس کا فیصلہ چار تین کا ہے اور سیاسی حکمت عملی کے طور پر اسمبلیوں کی تحلیل کیا جمہوریت ہے؟ سپریم کورٹ غیر ارادی طور ہر سیاسی معاملات لے کر پارلیمنٹ کو کمزور کرریی ہے۔ اسی باعث اس عدالت کی غیر جانبداری پر سوال کھڑے ہوئے۔ عدالت سیاسی مقدمات کیوں لیتی ہے؟ دیگر ادارے بھی اپنی آئینی زمے داریاں پوری کریں۔

تفصیلی نوٹ کہا گیا ہے کہ عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے استعفے دے دیئے۔ جب استعفے منظور ہوگئے تو عدالت آگئے اور ایسے معاملات میں عدالت اسٹیک ہولڈرز کا کردار بھی دیکھا کرے۔ صوبائی اسمبلیوں کا کیس ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ نے کیسے لے لیا، یہ استحقاق ہائی کورٹ کا ہی تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے دور رس نتائج ہوئے اور سیاست داں سیاسی مسائل خود حل کریں۔

واضح رہے کہ اب یکم مارچ کے فیصلے پر تصدیق مہر ثابت ہو گئی کہ یکم مارچ کا فیصلہ 4/3 کا ہے 4 ججز نے پیٹیشن خارج کی جبکہ 3 اقلیتی ججز نے آلاو کیا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں