ساون کے اندھے اور سائیں کے اندھے

0
365

تحریر: محمد ندیم صدیقی

سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنے پہلے دور حکومت 1990-1993میں ایک مرتبہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے حالات بہت اچھے ہیں، لوگ خوشحال ہیں، عوام پر امن زندگی گزار رہے ہیں، ملکی معیشت اوپر کی طرف جارہی ہے۔ حکومت کے خلاف منفی پروپگینڈا کرنیوالے اندھے ہیں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔

 نوازشریف کے اس بیان پر نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسرغفور احمد جو خود آئی جے آئی کی اس حکومت کاحصہ تھے جوابی بیان میں کہا کہ جو جنگ اخبار میں فرنٹ پیج پر نمایاں شائع ہوا “نوازشریف ساون کے اندھے ہیں، انہیں ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے”۔ کیونکہ میری اردو کمزور ہے اس لئے میں اس وقت اس بیان کو سمجھ نہیں سکا تھا۔ میں نے ڈکشنری کھول کر ساون کے اندھے محاورے کا مطلب دیکھا تو پھر بات سمجھ آگئی۔ ساون کے اندھے کا مطلب ہوتا ہے ‘وہ شخص جسے ہرطرف اچھا ہی اچھا نظر آئے’۔ یعنی ‘سب اچھا کا نعرہ لگانے والا شخص’۔

 اس محاورے کی کہانی یہ ہے کہ کسی گائوں میں ایک شخص رہا کرتا تھا۔ اس کی بینائی عین اس وقت ختم ہوگئی جب موسم بہار اپنے بام عروج اور جوبن پرتھا اور ہرطر ف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ سبزہ سبزہ ہی تھا اور فصلیں لہلارہی تھیں۔ اس لئے اس نابینا دیہاتی سے جب بھی کوئی پوچھتا کہ موسم کیسا ہے تو وہ کہتا ہے ہرطرف ہریالی ہے فصلیں لہلارہی ہیں، سبزہ ہی سبزہ ہے۔

پاکستان میں ایک سیاسی شخصیت ایسی بھی ہے جس کا نام لیا جائے تو ایک مخصوص طبقہ فکر کے لوگوں کی اکثریت کچھ کہے نہ کہے لیکن اسے سقوط ڈھاکا کا ذمہ دار ضرور قراردیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے پاکستان توڑنے کا مجرم قرار دینے والی جماعتوں نے اسے پہلے صدر مملکت تسلیم کیا اور بعد میں پانچ سال کیلئے وزیراعظم بھی تسلیم کرلیا تھا۔ اسمبلی اور اسمبلی کے باہر کبھی اسے پاکستان توڑنے کا مجرم نہیں کہا، لیکن 1977 میں الیکشن کے بعد اس کے خلاف تحریک اور جنرل ضیا کے مارشل کے بعد ان جماعتوں کے حامیوں، رہنمائوں اور کارکنوں نے اس سابق وزیراعظم کو ہی سقوط ڈھاکا کا سب سے بڑا واحد مجرم قراردیدیا۔ اس رویئے اور بیانیے پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ جب سقوط ڈھاکا کا سانحہ رونما ہوا تو اس وقت پاکستان کے سیاسی اسٹیج پر جو کردار سب سے زیادہ متحرک اور بڑبولا تھا وہ ذوالفقارعلی بھٹو ہی تھا۔ وہی اسلام آباد میں بھی سب کو نظر آتا تھا، وہ کبھی ڈھاکا میں، کبھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں، اخبارات اور ٹی وی پربھی وہی زیادہ نظر آتا۔ اس دوران سقوط ڈھاکا ہوگیا بس جب سے سب کو ایک ہی شخص نظر آرہا ہے۔ بھٹو، بھٹو،بھٹو۔

جیسے ساون کے اندھے کو ہرطرف ہریالی ہی ہریالی نظر آتی تھی۔ اسی طرح سقوط ڈھاکا کے اندھوں کو ہرطرف بھٹو ہی بھٹو نظر آتا ہے اور اس لئے یہ سب اندھے بھٹو سائیں کے اندھے ہیں۔ ہم انہیں سائیں کے اندھے بھی کہہ سکتے ہیں اور ان سب اندھوں کو سقوط ڈھاکا میں جنرل یحیٰ، جنرل ایوب، جنرل اے کے نیازی، جنرل ٹکا خان ودیگر جرنیل کے علاوہ شیخ مجیب الرحمان، اندراگاندھی، امریکی صدر نکسن، روسی صدر بریژنیف، پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی، پنجابی سیاستدان وغیرہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔

بس ایک بھٹو ہی نظر آتا ہے، بے چارے سائیں کے اندھے۔


جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں