تبدیلی کے خواہش مند

0
52

تحریر: عبدالغفار رائو

ہم میں سے اکثر تبدیلی کے خواہش مند ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ تبدیلی کا آغاز دوسروں سے ہو۔

پاکستانیوں کا رویہ بحیثیت فرد سے زیادہ بحیثیت قوم اور مجموعی ماحول کا پیدا کردہ ہے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگوں کی یہ سوچ بن چکی ہے کہ اپنی باری کا انتظار کرنا، قانون کی پاسداری کرنا، ریاست کے احکامات کا احترام کرنا، دوسرے کے حق کا خیال رکھنا، ہمیں اپنی توہین لگتا ہے۔ ہم دوسروں کو غلط ثابت کرنے کیلئے تو سب سے پہلے تیار دکھائی دیتے ہیں لیکن اپنی ذات کو ٹھیک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بسا اُوقات ہم ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ہمارے پاس اس کی دلیل بھی ہوتی ہے لیکن جب کوئی دوسرا اسی طرح دلیل کا سہارا لے کر سگنل توڑتا ہے تو ہم اُس کی دلیل کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں، ہم یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری دلیل زیادہ قوی ہے۔ صرف ٹریفک کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ غلط کام کی ہمارے پاس ہزار دلیلیں ہوتی ہیں لیکن جب کوئی دوسرا یہی کام کر رہا ہو تو اسے غلط کہنے کی بھی ہمارے پاس ہزار دلیلیں ہوتی ہیں۔

یہ رویہ بتاتا ہے کہ شاید ہمیں ابھی کافی طویل سفر کرنا ہے۔ جب ہم اپنے ذاتی مفاد کو چھوڑ کر قانون اور ریاست کے مفاد کو مقدم رکھیں گے، چیزوں کو مثبت نظر سے دیکھیں گے، دوسروں کو برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں گے، بالکل اسی روئیے کی طرح جب کسی دوسرے ملک میں ہوتے ہیں تو ہمارا رویہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے مہذب شہری کی طرح ہوتا ہے۔

ہم میں سے اکثر تبدیلی کے خواہش مند ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ تبدیلی کا آغاز دوسروں سے ہو، ہم یہ نظریہ اپناتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ یہ ہمارا ملک ہے اور اصلاح احوال کیلئے کوشش بھی ہمیں ہی کرنی ہوگی۔ باہر سے آ کر کوئی اس کی اصلاح نہیں کرے گا بلکہ اس کیلئے ہمیں اپنی ذات سے آغاز کرنا ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں