میں شاید کب کی مرجاتی۔۔۔

0
166


تحریر: اقراء جاوید

میرا پہلی مرتبہ تھر جانے کا اتفاق ہوا تو تھریوں کی زندگیوں اور ان کی مشکلات کا بڑی باریک بینی اور بغور مشاہدہ کیا۔ یہاں کے لوگ خصوصا خواتین بڑی ہی ملنسار اور محبت کرنے والا وسیع دل رکھتی ہیں۔ یہاں کے مرد سے لیکر خواتین سخت جاں، جفاکش اور موسم کی تلخیاں برداشت کیے محنت مزدوری کررہے ہوتے ہیں۔ تھر کا صحرا لاکھ سوکھا سہی، پینے کیلیے صاف پانی میسر نہیں، بجلی کی سہولت نہیں ،اندھیرے میں کٹتے دن رات سہی، صحت  عامہ اور خوراک کے لاکھ مسائل جوں کے توں، سفری سہولیات دستیاب نہیں، مور اور اونٹوں کے صحرا میں بکھرے ڈھانچے، معصوم جگر کے گوشوں کا تڑپنا سہی پر اطمینان اور سکون سے بھرپور اور زبان پر کسی چیز کا گلہ شکوہ کیے بغیر  زندگی بسر کررہے ہیں۔

شاید اسی صورتحال کو دیکھ کر سندھ سے تعلق رکھنے والے تھری شاعر حلیم باغی نے لکھا ہے کہ
‘میرے تھر کا حال جو پوچھو گے تو رو پڑوگے رو پڑوگے’۔

تھر کے سوکھے صحرا قحط سالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پانی کے بغیر کوئی شے زندہ نہیں رہ سکتی  وہاں جاکر اندازہ ہوا یہاں کے لوگوں کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ پانی ہے۔ میں تھر کے گاؤں کے ایک چنرے میں داخل ہوئی اور وہاں ایک بزرگ خاتون سے ہمکلام ہوئی اور اس سے پینے کے صاف پانی کے حوالے سے دریافت کیا تو اس کے الفاظ کچھ یوں تھے۔ ‘آہ بھرتے ہوئے اس نے جواب دیا، بیٹا میں شاید کب کی مرجاتی!!، سر پر گھڑا اٹھائے میلوں دور پیدل سفر کرکے کنویں سے پانی نکالنا میرے بس میں نہیں تھا، اس ڈھلتی عمر میں اگر مزید پانی کا بوجھ اُٹھاتی تو شاید آج زندہ نہ ہوتی لیکن ایک نجی این جی او کی مدد کی بدولت مجھے اب ایک نئی زندگی مل گئی ہے، اب میلوں پیدل کی مصافحت طے کیے بغیر میٹھا اور صاف پانی مل جاتا ہے، میں اب بہت خوش ہوں’۔

یہ تو ایک تھری عورت کے منہ سے نکلے الفاظ تھے شاید بلکہ یقینا ہر تھر ی عورت کے الفاظ ہوتے لیکن این جی او نے پینے کے صاف پانی کے ہینڈ پمپز لگوا کر ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور کٹھن مسئلہ حل کردیا ہے اور ان کی زندگی آسان اور سہل بنادی ہے۔ پہلے ٹی وی اور اخبار کی ہر شہ سرخی میں تھر اور مٹھی کا نام  اور ان کی آئے روز ایک نئی دکھ بھری روداد سنتی تو خود سے ہی سوال کرتی کیا واقعی آج کے دور میں بھی ایسا ہوتا ہے؟۔ اس جدید ٹیکنالوجی اور گلوبل ولیج کہلائی جانے والی دنیا میں اب بھی کیا ایسا ہوتا ہے لیکن خود تھر جاکر دیکھنے کے بعد دل واقعی خون کے آنسو روتا ہے۔

اس شہر کی دنیا سے تو وہ ویران اور بنجر دنیا بالکل ہی مختلف ہے وہاں کے لوگوں کو تو اس بات کا علم ہی نہیں کہ زندگی کہتے کسے ہیں۔ یہاں کے لوگ کنویں سے گدھوں اور اونٹوں کی مدد سے پانی نکالتے ہیں۔ پانی کیلیے ایک گھڑا سر پر اور دوسرا بغل میں دبائے دوبارہ میلوں کا سفر پیدل طے کرنے کے بعد ڈھائی سو سے پانچ سو فٹ گہرائی میں کنواں انھیں منہ چڑھاتا۔ وہاں ایک اور چیز کا  مشاہدہ کیا کہ تھر میں میٹھا اور کھارا دونوں قسم کا پانی ہے لیکن اس کے لیے پیدل دور دراز سفر کرنا پڑتا ہے جو کہ تھریوں کیلیے بہت محنت طلب کام ہے۔

انہیں مشکل حالات کو آسان بنانے کیلیے تھر میں پیاس سے جاں بہ لب انسانوں کیلیے این جی او نے پینے کےصاف پانی کی فراہمی کیلیے منصوبہ شروع کیا ہے جس کے تحت تھریوں کیلیے ان کے چنروں کے آس پاس میٹھے اور صاف پانی کے ہینڈ پمپز لگوادیئے ہیں تاکہ یہاں کہ لوگوں کو پانی کیلئے میلوں کی مصافحت پیدل طے نہ کرنا پڑے اور مزید اس کو آسان بنانے کیلیے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔این جی او کی اس سنجیدہ کوششوں سے اب تک سینکڑوں افراد مستفید ہورہے ہیں۔

چاہیئے تو حکومت کو تھا کہ تھریوں کی بنیادی سہولتوں کا خیال رکھتی ان کیلیے آسانیاں پیدا کرتی لیکن اب یہ کام  این جی اوز اور مختلف تنظیمیں سرانجام دے رہی ہیں۔ حکومت وقت سے بس اتنی سی التجا ہے کہ خدارا اپنے قیمتی محلوں سے نکل کر  تھر کا بھی دورہ کرلیا کریں، ان کے ساتھ بھی تھوڑا وقت گزاریں گے تو ان کی ضرورتوں کا احساس بھی ہوگا ورنہ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر دو لفظ ہمدردی کے بولنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ اب وقت ہے کہ باتوں اور دعوؤں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔

(اقراء جاوید نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔ سماجی موضوعات پر لکھنے کا ذوق رکھتی ہیں اور خصوصاً تاریخ کے حوالے سےجاننے میں تجسس رکھتی ہیں)۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں