سانحہ مچھ: وزیراعظم کو کون بلیک میل کر رہا ہے؟

0
99

تحریر: طاہر محمود اعوان

سانحہ مچھ کے تناظر میں آج وزیر اعظم عمران خان کے ایک غیر دانش مندانہ بیان نے جلتی پر تیل کا کام کردیا، جب سے عمران خان اقتدار میں آئے ہیں، ان کے بارے میں ایک بات تواتر کے ساتھ کی جارہی ہے کہ انہیں نہ تو اپوزیشن کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی انہیں اسٹیبلشمنٹ سے کوئی خطرہ ہے۔ بلکہ عمران خان کو اگر کوئی خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ خود عمران خان ہے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اکثر انہیں مشکل میں ڈالتے آئے ہیں، کچھ ایسا ہی بیان انھوں نے سانحہ مچھ کے تناظر میں داغ دیا جس نے اس آگ پر گویا تیل ڈالنے کا کام کردیا ہے، تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیر اعظم ایسا کہنے پر کیوں مجبور ہوئے؟

ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ عبدالخالق ہزارہ کہتے ہیں کہ جاں بحق افراد کے لواحقین کوئی اور ہیں اور میتیوں سمیت دھرنا دینے والے متنظمین کچھ اور لوگ ہیں۔ ان کے بقول لواحقین لاشوں کی تدفین کے لئے تیار تھے پھر اچانک کچھ لوگ آئے اور لاشوں کو اٹھا کر سڑک پر رکھ دیا۔ لواحقین کے علاوہ یہ منتظمین کون ہیں؟ اس بارے میں کچھ حلقے ایران اور افغانستان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ایران شعیہ اکثریتی ملک ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہی پاکستان میں موجود شیعہ آبادی کے قتل عام کی مذمت کرتا آیا ہے۔ تاہم اس مرتبہ شاید بات مذمت سے کچھ آگے کی ہے۔ ایک معروف یوٹیوبر عبدالقادر کے مطابق دھرنے کے منتظمین میں سے کم از کم تین افراد ایسے ہیں جن کا تعلق ایران سے ہے تاہم وہ پاکستان میں قیام پزیر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو وزیراعظم کے کوئٹہ آنے تک میتوں کو دفنانے سے انکاری ہیں۔
کوئٹہ کے صحافیوں سے گفتگو میں کچھ لواحقین نے بتایا کہ میتوں کی تدفین کے معاملات ان کے ہاتھ سے لے کر علماء نے اپنے ہاتھ لے لئے ہیں۔ دوسری جانب اس دھرنے کی حمایت میں مجلس وحدت المسلمین کی جانب سے کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی دھرنے دیئے جارہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والا یہ سانحہ پہلا نہیں بلکہ اس سے قبل بھی درجنوں ایسے سانحات ہوچکے ہیں۔ جن میں ایسے ہی بے گناہ افراد کا خون ناحق بہایا گیا۔ 2013 میں بھی ایسے ہی ایک واقعے میں درجنوں افراد لقمہ اجل بنے تھے اور جنوری کی اسی ٹھٹرتی سردی میں شرکاء نے لاشوں سمیت دھرنا دیا تھا۔ تاہم اس وقت کسی نے وزیراعظم یا اس وقت کے صدر آصف زرداری سے کوئٹہ آنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ سانحہ مچھ کا ایک رخ اس واقعے میں شہید ہونے والے سات افغان شہریوں سے متعلق بھی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان قونصلر جنرل نے پاکستان سے لاشوں کی افغانستان کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے جب کہ اس واقع میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر حراست کان کن تک قونصلر رسائی بھی مانگی ہے۔ اس لحاظ سے یہ سانحہ ایک عالمی اہمیت بھی اختیار کر گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ پہلے سے ہی عالمی طاقتوں کی پراکسی وار کی آماجگاہ بلوچستان کی سرزمین پر دشمن سانحہ مچھ کولے کر پاکستان کے خلاف کسی نئی سازش کے تانے تو نہیں بن رہے؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ برس جب ایس پی داوڑ کو اغواء کے بعد افغانستان لے جاکر قتل کیا گیا تو بعد ازاں مقتول ایس پی کی لاش کو پاکستان کے حوالے کرنے کے حوالے پر ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔ افغان حکومت نے عجیب و غریب اور سفارتی تقاضوں اور آداب کے برعکس ایس پی کی لاش کسی پاکستانی آفیشل کو دینے کے بجائے یہ شرط رکھ دی کہ وہ لاش پی ٹی ایم رہنماء محسن داوڑ یا علی وزیر کے حوالے کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہی افغانستان اپنے عالمی آقائوں کے اشاروں پر اس دھرنے کو طول دینے اور وزیر اعظم کو کوئٹہ بلاکر پاکستان کو گھٹنوں کے بل لانے کی بھونڈی حرکت تو نہیں کر رہا؟

سانحہ مچھ میں ایک نیا موڑ ہمارے مقامی سیاست دانوں اور خاص طور پر پی ڈی ایم رہنمائوں کی انٹری ہے جس پر خود شیعہ برادری کی جانب سے بھی حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دور میں بھی ہزارہ برادری کے لئے کوئٹہ کی سرزمین تنگ ہی رہی ہے۔ ایک شیعہ رہنماء نے تو ٹی وی پروگرام میں یہاں تک کہہ دیا کہ مریم نواز اپنے پیچھے رانا ثناء اللہ جیسے شخص کو کھڑا کر کے دھرنے والوں کا کون سا دکھ بانٹنے گئی تھی؟ کوئٹہ میں مریم نواز سے ایک بہادر رپورٹر نے جب یہ پوچھنے کی جسارت کی کہ کیا وہ اپنے دور میں برپا سانحہ ماڈل ٹائون کے لواحقین کے گھروں میں بھی یوں ہی گئی تھی؟ یا ان کے دور میں جو کم و پیش چار سو ہزارہ برادری کے افراد دہشتگردی کی بھینٹ چڑھے اس پر وہ کیا کہیں گی، تو ان سوالوں کا مریم کے پاس کوئی جواب نہ تھا، بلکہ ایک موقع پر انھوں نے پیچھے ہوکر احسن اقبال کو آگے کردیا۔ اس سارے تناظر میں پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کردار خاصا دلچسپ ہے کیوں کہ ماضی میں وہ ایسے کسی واقعے کی کھل کر مذمت بھی نہیں کرسکے تاہم اب اس موقع کو انھوں نے حکومت کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کرکے ضائع نہیں جانے دیا۔

اس سارے معاملے میں دیکھنا یہ ہے کہ آیا وزیراعظم عمران خان کوئٹہ جانے سے کیوں کترا رہے ہیں؟ کیا کوئٹہ کابل، تہران یا پھر دہلی میں ہے جو وزیراعظم کو جانے میں مسئلہ ہے؟ وہ تو ایک جذباتی انسان کے طور پر مشہور ہیں، جب وہ اپوزیشن میں تھے تو خاص طور پر ایسے کسی موقع کو خالی نہیں جانے دیتے تھے، سانحہ ماڈل ٹائون ہو یا پھر ہزارہ برادری کی نسل کشی کا معاملہ عمران خان ہمیشہ متاثرین کے ساتھ کھڑے نظر آئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اب وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کوئٹہ جانے پر تیار نہیں؟ جب کہ وہ اس موقع پر متاثرین کا دکھ بانٹ کر نہ صرف یہ کہ اپوزیشن اور میڈیا کی تنقید سے بچ سکتے تھے بلکہ اپنی حکومت کا ایک مثبت تاثر بنانے میں بھی کامیاب رہتے۔ بظاہر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اس کے پیچھے ضرور کوئی ایسی وجہ ہے جس کا تعلق پاکستان کی عزت اور ساکھ سے بھی ہے۔ اگر یہ قیاس آرائیاں واقعی سچ نکل آئیں کہ اس سانحہ کے بعد کی صورتحال میں ہمارے دو پڑوسی ممالک کی غیر ضروری مداخلت شامل ہے تو پھر بھلا وزیر اعظم پاکستان کسی غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے متاثرین کے قدموں میں کیوں جائیں؟ جب کہ وہ اپنے چوٹی کے وزراء کو وہاں پہلے ہی بھیج چکے ہیں۔ حکومتی وزراء تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ لواحقین سے مذاکرات کامیاب ہوچکے ہیں اور دو روز قبل ہی ان کے تمام مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ وزیر کے بقول دھرنے کے منتظمیمن کے معاملات البتہ الگ ہیں اور ان کے کچھ مطالبات آئین کے خلاف بھی ہیں جنہیں نہیں مانا جاسکتا۔

ان سطور کے لکھنے کے دوران ہی اطلاع ملی ہے کہ وزیراعظم نے اگلے چند گھٹنوں میں کوئٹہ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے جب کہ لواحقین میتوں کی تدفین پر بھی راضی ہوگئے ہیں۔اللہ کرے ایسا ہی ہو تاہم یہ ضرور ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے الفاظ پر توجہ دینی کی ضرورت ہے ورنہ کسی روز وہ اس کی بہت بھاری سیاسی قیمت چکا سکتے ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن رہنماء بھی قوم اور ملک پر رحم کرے۔ سیاست ہوتی رہے گی کم ازکم ملک کی عزت اور سلامتی سے جڑے معاملات پر پوائنٹ سکورنگ سے گریز کرنا چاہیے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں