قربانی کے دشمنوں سے ہوشیار رہیں

0
132

تحریر: ملیحہ سید

سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اب عید قربان میں جانور کی خرید و فروخت کو لیکر شور مچائیں گے۔ ایک گروہ جانوروں میں بیماریوں کی بات کرتے ہوئے یہ بات کرے گا کہ ان میں بیماریاں ہیں۔ اس لیے خالص اور صاف ستھرے گوشت میں فی کلو دو ڈھائی ہزار روپے کا اضافہ ممکن ہے۔ آپ ان سے مشورہ مانگیں گے اور وہ اپنے کسی جاننے والے کا رابطے نمبر دے گا جس میں اس کا اپنا کمیشن سٹ ہوگا۔ یہ وہ مارکیٹنگ ٹول ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جائے گا۔ کوئی ان سے یہ سوال ہرگز نہیں پوچھے گا کہ جب پورے ملک کے جانوروں میں بیماری ہے تو تمہارا جانور اور فارم کیسے محفوظ رہ گیا۔ اس کے لیے وہ فی میل کو بھی ساتھ لیکر چلیں گے کیونکہ نیم برہنہ جلوے بکھیرتی ہوئی، آپ کی رانوں پر ہاتھ مار کر بات کرتی ہوئی، ویلگر ڈاک کرتی ہوئی خاتون یا لڑکی سے آپ کیسے خود کو بچا پائیں گے اور ان کے جال میں پھنس کر جانور خریدیں گے اور اگر بعد میں کوئی ایشو ہوا تو وہ صاف انکار کر دیں گے کہ کی ہم نے صحیح چیز دی تھی۔ راستے میں کچھ ہوا تو ہماری زمہ داری نہیں۔

یاد رکھیئے قدرت نا مہربان نہیں ہے قربانی کے دنوں میں قربانی کے جانوروں میں قدرتی طور کوئی بیماری پیدا نہیں ہوتی کیونکہ قربانی اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسند ہے۔ یہ صرف ہمارے ہاں کے لالچی لوگوں کا شیوہ ہے کہ اپنا مال بیچنے کے لیے پوری مارکیٹ داؤ پر لگا دو۔ پچھلے دنوں گائے اور مرغی کے گوشت میں بیماری کا شوشا اُٹھا تھا مگر وہ صرف سندھ یا حد پنجاب کے چند ایک فارموں میں پیدا ہوا تھا جو کہ تلف کر دیا گیا تھا۔ اس لیے سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے دھوکہ بازوں سے محفوظ رہیں اور ان کے گماشتوں سے بھی۔ کوشش کریں کہ جہاں سے ریگولر مال خریدتے ہیں وہیں جائیں اور لائیو اسٹاک کی ویب سائٹ پر ریگولر وزٹ کریں۔

دوسرا! لوگ قربانی کی رقم کو اللہ کی راہ پر خرچ کرنے کی ترغیب دیں گے تو ان سے کہنا ہے کہ یہ ترغیب اس وقت کہاں مر جاتی ہے جب مہنگی گاڑیاں اور موبائل فون خریدتے ہو۔ یاد رکھیئے کہ جو خاندان دس جانور قربان کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ میرے والد صاحب کے ایک دوست تھے اللہ تعالیٰ ابو جی اور انکل دونوں کو غریقِ رحمت کرے آمین۔ وہ ایک ماہ پہلے جانور خریدتے تھے تو ساتھ ہی ایک دو مددگار بھی رکھ لیتے۔ کھانا پینا فری اور گھر والا ہی۔ اور قربانی کے بعد جب انہیں رخصت کرتے تو مہینے بھر کے پیسے، قربانی کا گوشت اور ایک آدھ کپڑوں کا جوڑا اور گھر سے بھی کچھ سامان ساتھ دے کر روانہ کرتے۔ عموماً گھر کی خواتین کپڑے، جوتے اور بیڈ کور ساتھ نکال دیتی جو استعمال میں نہیں ہوتے تھے۔

یاد رکھیئے کہ قربانی کے دنوں میں سرمایہ کی سرکولیشن میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ہزاروں افراد کا روزگار مینج ہو جاتا ہے۔ جسے بڑی شدت سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ دو تین سالوں میں پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے آنے والی معاشی سست روی کی وجہ سے جزوی یا مکمل طور پر بے روزگار ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال دس ملین سے زائد جانور ذبح ہوئے۔ جس سے ایک خطیر رقم مزدوروں کی جیب میں گئی، ہماری لیدر صعنت اشیا کو برآمد کرتی ہے، جس سے ملک کو معاشی فائدہ اور حکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوا۔ تقریباً چار سو ارب کے حجم کا کاروبار رہا۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کہ گذشتہ سال پاکستانیوں نے چار سو ارب روپے مالیت کے ایک کروڑ سے زائد جانوروں کی قربانی کر کے سنت ابراہیمی کو انجام دیا، جو گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ تھا۔

ایک قومی اخبار میں صفحہ اول پر سرخی اور دیگر میڈیا ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ بکروں کی قربانی کی گئی جو 48 لاکھ سے زائد تھے۔ جب کہ 35 لاکھ سے زائد گائے بیل قربان کئے گئے۔ 12 لاکھ سے زیادہ بھیڑ اور دنبہ جب کہ 5 لاکھ سے زائد اونٹوں کی خرید و فروخت ریکارڈ کی گئی۔ مجموعی طور پر ساڑھے 3 کروڑ افراد نے ایک قربانی کی سنت ادا کی۔ جو کل آبادی کا 16 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ جانور کراچی ہی میں فروخت ہوئے جو تقریبا 18 سے 19 لاکھ کے درمیان ہیں۔ 2020 میں 15 لاکھ کے مقابلے میں 3 لاکھ زیادہ ہے۔

ان سب میں سب کا بھلا ہوا، قربانی ملکی معیشت کو استحکام دینے میں کامیاب ثابت ہوتی ہے بس ریاست کو اس منڈی مویشیاں میں بہتر انتظامات کرنے ہوں گے اور قیمتوں میں استحکام پیدا کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں