الیاس شاکر کا نوحہ

0
82

تحریر: شبیر عادل

ایک زمانے میں الیاس شاکر سے بہت ملاقاتیں رہیں۔ وہ نوائے وقت اور میں جسارت میں رپورٹر تھا۔ وہ بہت ذہین اور زیرک شخصیت کا مالک تھا۔

مختلف نیوز کوریج کے علاوہ ہم اکثر لنچ کے ٹائم کراچی پریس کلب میں ملا کرتے۔ وہ بہت شگفتہ مزاج اور یار باش انسان تھا، مجھے یاد نہیں کہ اس نے میرا یا کسی اور کا دل دکھایا ہو یا مذاق اڑایا ہوا۔ اس کا تعلق حیدرآباد سندھ سے تھا، کچھ عرصے بعد ہی اس کے ساتھ ایک اور نوجوان نظر آنے لگا، اس نے تعارف کرایا کہ یہ مختار عاقل ہیں اور حیدرآباد سے آئے ہیں۔

اسی دوران انہوں نے جاوید صدیقی ایڈوکیٹ کے ساتھ مل کر “شبل پبلی کیشنز” کی بنیاد ڈالی۔ جس کے تحت انہوں نے تازہ اور سلگتے ہوئے سیاسی موضوعات پر کتابوں کی اشاعت کا ہمہ گیر سلسلہ شروع کیا۔ وہ کسی بھی نئے سیاسی اشو پر اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین ایک جگہ جمع کرتے اور کتاب کا سنسنی خیز نام رکھ کر شائع کر دیتے۔

کتابوں کی اشاعت سے قبل انہوں نے اپنے دوست مختار عاقل کے ساتھ مل کر کراچی سے خیبر تک پورے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کا دورہ کیا، ہاکروں اور کتب فروشوں کو شبل پبلی کیشنز کا تعارف اور چند کتب کے ٹائیٹل دکھائے۔ ان کا دورہ کامیاب رہا اور وہ پانچ ہزار کتابوں کے آرڈر لے کر آئے۔ اپنے ملک گیر دورے کی تفصیل انہوں نے ایک سنہری دوپہر مجھے پریس کلب میں بہت مزے لے لے کر بتائی تھی۔

ان کے شبل پبلی کیشنز کے تحت شائع ہونے والی کتب نے دھوم مچا دی۔ انہوں نے اس ادارے کے تحت میری بھی چند کتابیں شائع کی تھیں۔ اس کے بعد 12 جون 1985 کو مجھے پاکستان ٹیلی ویژن میں جاب مل گئی تو الیاس شاکر سے ملاقاتیں کم ہوگئیں۔ لیکن ختم نہیں۔

ایک دن کلفٹن میں شبل پبلی کیشنز کے دفتر کے باہر ان سے ملاقات ہوئی تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک رہا تھا، اپنی جیب سے ایک پرچہ نکال کر میرے حوالے کیا، میں نے دیکھا تو وہ قومی اخبار کا ڈیکلریشن تھا۔ میں نے انہیں گلے لگا کر مبارکباد دی۔

اس کے بعد انہوں نے مجھے قومی اخبار کے دفتر بلوایا اور کہا کہ یار تم آکر اس اخبار میں کام کرو، میں نے کہا کہ پی ٹی وی چھوڑ کر؟۔ بولے کہ نہیں یار، رات کو پی ٹی وی سے فارغ ہوکر یہاں آجایا کرو اور صبح گھر جاکر سوجایا کرو۔ لیکن میں نے معذرت کرلی۔

اس کے اخبار نے بھی دھوم مچا دی تھی، بڑے بڑے ادارے ہل کر رہ گئے تھے۔ انہوں نے بھی قومی اخبار کے مقابلے پر اخبار نکالے مگر اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔ لوگوں کو قومی اخبار کا انتظار رہتا تھا۔ اس کے بعد اس نے دھوم ٹی وی بھی شروع کیا تھا ۔ لیکن وہ چند سال ہی چل سکا۔

سوچا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد صحافت کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا کروں گا۔ لیکن ریٹائرمنٹ سے قبل ہی سن 2014 میں منہ کا کینسر ہوا اور 14 دسمبر کو بارہ تیرہ گھنٹے طویل آپریشن۔ سن 2015 میں پانچ ماہ تک ریڈیو تھراپی ہوئی اور پھر اس کے اذیت ناک اثرات۔ اس کے بعد دو سال سکون سے گزرے تھے کہ
2018 میں پھر اس کے اثرات نے بستر پر ڈال دیا۔ اسی سال 8 ستمبر  کو یہ افسوسناک اطلاع ملی کہ میرا دوست الیاس شاکر ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر ملک عدم کی جانب چلا گیا ہے۔

آج مجھے اس کی برسی کے موقع پر اس کی بہت یاد آئی۔
بس یادیں رہ جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں