کالی! پیچھے ہٹو۔۔۔

0
240

لکھاری: فہیم صدیقی

“کالی”

“پیچھے ہٹو”

میں نے اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا،
میرے لہجے سے میری جھنجھلاہٹ اور بیزاری صاف ظاہر ہورہی تھی۔
وہ میرے پیچھے دھکیلنے پر کرسی سے نیچے گری اور جہاں گری تھی، وہیں سے اس نے دوبارہ زقند بھری اور اس بار وہ سیدھی میری گود میں تھی۔ لمحہ بھر بھی ضایع کیے بغیر وہ اپنے پچھلے پیروں پر کھڑی ہوئی اور اگلے دونوں پیر اس نے میری کاندھے پر رکھ لیے۔

اب وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے اس سے اپنی کاوش پر داد چاہتی ہو اور وہ بھی جوابا مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔

ہم لان میں بیٹھے تھے اور یارک شائر ٹیریئر نسل کے میرے تینوں پالتو کُتے ہمارے ارد گرد ہی کھیل رہے تھے۔ یہ تینوں حیدرآباد والے دوست خرم رانا کی مہربانی تھی، جنہوں نے کچھ عرصے پہلے ہی چھوٹی نسل کے یہ تینوں کتے تحفتا دیے تھے۔ ٹائیسن، آسکر اور کالی ۔۔ ٹائیسن اور آسکر تو پھر کنٹرول میں رہتے تھے لیکن کالی میں نجانے مجھے دیکھ کر کون سا کرنٹ بھر جاتا تھا کہ وہ بس مجھ پر ہی چڑھی رہتی تھی۔ کالی مجھے بھی تینوں میں سب سے زیادہ پیاری تھی اس کے گھنے سیاہ لمبے بالوں نے اس کی خوبصورتی کو بہت بڑھا دیا تھا اور پھر وہ طبیعت کی بھی کافی چنچل تھی۔ میں نے اسے کبھی بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی تھی کچھ کرنے کو نہ ہو تو ٹائیسن اور آسکر کو ہی چھیڑنا شروع کردیتی تھی اور پھر تینوں مل کر وہ غدر مچاتے تھے کہ الحفیظ الامان۔

میں نے تھوڑی دیر پہلے ہی اسے گود سے اتارا تھا۔ اس کے سیاہ بالوں میں ہاتھ پھیرنا مجھے اچھا لگتا تھا لیکن کالی صاحبہ میری گود سے اترنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ میں بھی برداشت کرلیتا لیکن وہ گود میں بھی ٹک کر نہیں بیٹھ رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ میں باتیں چھوڑ کر صرف اس کے ساتھ کھیلوں، لیکن ہم کافی دن بعد ملے تھے اس لیے میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ کالی کے چکر میں “وہ” مجھ سے ناراض ہوجائے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے کالی کو تھوڑا دور کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کالی ہی کیا جو مان جائے۔

اس کی مسکراہٹ سے حوصلہ پا کر میں نے اس بار کالی کو ہٹانے کی کوشش نہیں کی اور میری انگلیاں اس کے بالوں میں چلنا شروع ہوگئیں۔ “تمہارے خیال میں وہ کون سی چیز ہے جو دنیا کی ہر ذی روح کو رام کرسکتی ہے؟؟؟ اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔

“پیار” میں نے لمحہ بھر کا بھی توقف کیے بغیر جواب دیا۔

میرا جواب سُن کر اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی
پیار سے بڑھ کر تو کچھ نہیں نا؟ اس نے مسکراتے ہوئے دوسرا سوال کیا۔

میں اس کے انداز سے اُلجھ گیا تھا وہ میری الجھن کو بھانپتے ہوئے ہنس پڑی اور اُٹھتے ہوئے بولی “چلو میں چلتی ہوں پھر ملاقات ہوگی”۔

میں نے بھی کالی کو گود سے اتارا اور کھڑا ہوگیا،
دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے سوال کیا “تم کیا پوچھنا چاہ رہی تھیں”۔

اس نے ہنستے ہوئے کہا “ارے کچھ نہیں بس ذہن میں ایسے ہی ایک خیال آگیا تھا کہ شاید پیار سے بڑھ کر بھی دنیا میں کوئی چیز ہو”۔

میں نے الجھی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا ہماری نظریں ملیں اور میں نے صاف محسوس کیا کہ وہ نظریں چرا رہی تھی۔ اس دوران ہم باہر آچکے تھے وہ اپنی کار کا دروازہ کھول کر بیٹھی، کار اسٹارٹ کی اور میری طرف دیکھے بغیر ہی اس نے کار آگے بڑھا دی۔

کالی بھی میرے پیچھے پیچھے باہر آگئی تھی میں اسے آواز دیتا ہوا واپس گھر میں آگیا۔ میں گھر میں واپس داخل ہوا ہی تھا کہ ڈور بیل بجنے کی آواز سنائی دی میں دوبارہ پلٹا۔

دروازہ کھولنے پر سامنے کبیر کھڑا تھا خرم رانا کا ملازم۔

کبیر کی گود میں ایک اور کتا تھا
خرم رانا نے جارجی کو بھیجا تھا

ہلکے کتھئی رنگ کے بالوں والی جارجی بھی بہت خوبصورت تھی، میرے پاس دو جوڑے مکمل ہوجائیں اس لیے خرم رانا نے جارجی کو بھی مجھے بھجوادیا تھا۔

میں کبیر سے جارجی کو لے کر ٹائیسن اور آسکر کو آوازیں دیتا ہوا واپس اندر داخل ہوا، تینوں ہی فورا میرے ارد گرد جمع ہوگئے۔ میں نے جارجی کو گود سے اتار دیا میں نے محسوس کیا کہ آسکر نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی، البتہ ٹائیسن نے جارجی کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا جبکہ کالی تھوڑے فاصلے پر کھڑی ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا لیکن میں اسے فوری طور پر سمجھ نہیں سکا اور اندر کمرے میں چلا گیا۔

میرے سرہانے پر علیم الحق حقی کی کتاب “عشق کا شین” رکھی تھی میں کئی بار پہلے بھی اسے پڑھ چکا تھا اور کم از کم  میرے لیے یہ وہ واحد کتاب تھی جسے دوبارہ پڑھنے کا بھی اپنا ہی ایک مزا تھا۔
ٹھاکر اوتار سنگھ کی کہانی۔۔۔ اوتار یعنی بھگوان سمان اور وہ بھگوان سمان جب عشق میں مبتلا ہوا تو بندہ بن گیا یعنی عبدل۔

میں کہانی میں اتنا محو تھا کہ باہر سے آنے والی آوازیں صحیح سے سُن نہیں سکا، وہ تو محمد یوشع کمرے میں آئے تو میرا مراقبہ نما مطالعہ ٹوٹا،
“بابا ٹائیسن اور کالی بہت بری طرح آپس میں لڑ رہے ہیں دیکھیں کتنا شور ہورہا ہے”۔

اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ کمرے کی کھڑکی سے آنے والا شور بہت زیادہ ہے۔ تینوں آپس میں کھیلتے تھے تو شور تو ہوتا تھا لیکن اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میں جلدی سے اُٹھا اور گھر کے اس حصے میں پہنچا جہاں کتوں کو رکھا ہوا تھا۔ ٹائیسن اور کالی واقعی ایک دوسرے سے گُتھم گُتھا تھے، میں نے بڑی مشکل سے دونوں کو الگ کیا، دونوں بری طرح ہانپ رہے تھے میرے لیے یہ دونوں کا نیا روپ تھا۔

محمد یوشع بھی میرے ساتھ ہی پہنچے تھے،
“بابا کالی جارجی کو مار رہی تھی تو ٹائیسن نے اسے بچانے کی کوشش کی اور پھر ٹائیسن اور کالی کی لڑائی شروع ہوگئی”۔

محمد یوشع مجھے تیز تیز لہجے میں تفصیلات بتانے لگے۔

“لگتا ہے کالی کو جارجی بالکل اچھی نہیں لگی بابا ہاں ٹائیسن سے اس کی خوب دوستی ہوگئی ہے، ٹائیسن بھی اب کالی کے ساتھ نہیں کھیل رہا وہ جارجی کے ساتھ ہی لگا ہوا ہے۔ “محمد یوشع بولے چلے جارہے تھے۔

کالی اور ٹائیسن اپنا نام سُن کر ایک بار پھر ایک دوسرے پر بھونکنے لگے تھے میں دونوں کو شانت کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ میں نے ٹائیسن کے گلے میں پڑا ہوا پٹہ محمد یوشع کو پکڑاتے ہوئے انہیں اسے وہاں سے لے جانے کے لیے کہا محمد یوشع اسے بڑی مشکل سے وہاں سے لے کر چلے گئے۔

میں اب کالی کی طرف متوجہ ہوا میں نے پیار سے چمکارتے ہوئے اسے آواز دی۔
کالی
لیکن کالی جو میرے صرف قریب آنے پر ہی بے قابو ہوجاتی تھی اس نے میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔

میں نے اسے گود میں اُٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ مجھ سے دور چلی گئی، میں نے جارجی کو لیا اور اسے لان میں لے آیا۔ ٹائیسن بھی وہیں موجود تھا دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے لگے میں نے سوچا کہ تھوڑی دیر یہیں بیٹھ کر کتاب پڑھ لی جائے اور کتاب لینے کمرے میں آگیا۔ میں کتاب لے کر کمرے سے نکلا تھا ہی کہ میں نے دوبارہ کالی اور ٹائیسن کے لڑنے کی آواز سنی۔

کالی بھی پیچھے پیچھے لان میں ہی آگئی تھی،
میں تیز تیز چلتا ہوا لان میں پہنچا تو دونوں پھر ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے اور جارجی ایک طرف آرام سے بیٹھی تھی۔ میں نے چلا کر دونوں کو الگ ہونے کے لیے کہا کالی نے میری آواز سُن کر میری طرف دیکھا اور اس کی توجہ بٹتے ہی ٹائیسن نے اسے گردن سے دبوچ لیا۔ میں تیزی سے آگے بڑھا اور اسے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا کافی کوشش کے بعد ٹائیسن نے اسے چھوڑ تو دیا لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ کالی اچانک بہت کمزور نظر آرہی تھی۔ اس میں وہ دم خم نہیں رہا تھا جو اس کا خاصا تھا جبکہ ٹائیسن ابھی بھی اس پر لپک رہا تھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ٹائیسن ایک بار پھر اس پر جھپٹا اس کا پنجہ کالی کے منہ پر پڑا اور کالی اچانک نیچے گر گئی۔ میں نے ٹائیسن کو پیچھے سے پکڑ کر دور کیا اور محمد یوشع کو آواز دے کر اسے ٹائیسن کو وہاں سے لے جانے کے لیے کہا۔

میں کالی کی طرف متوجہ ہوا تو وہ ویسے ہی اسی جگہ پڑی ہوئی تھی جہاں ٹائیسن کے حملے میں گری تھی، میں نے اسے ہلانے کی کوشش کی اور اسے آوازیں دینے لگا اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں لیکن اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں تھی۔ کالی میری بہت چہیتی تھی میں اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا۔ میں نے جلدی سے اسے گود میں اٹھایا اور اس کے جسم پر ہاتھ پھیر کر اس کی سانسیں چیک کرنے لگا لیکن مجھے لگا کہ اب دیر ہوچکی ہے۔ اس کی کھلی آنکھیں ساکت ہوچکی تھیں اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان آنکھوں میں میرے لیے بھی کوئی شکوہ ہو۔۔۔ جیسے وہ مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ تم جارجی کو کیوں لے کر آئے؟۔

زندگی میں صرف کسی کو چاہنا اہم نہیں ہوتا اسے اس کا احساس دلانا بھی اہم ہوتا ہے۔ پیار سے بڑھ کر توجہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، توجہ نہ ہو تو پیار اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔

اسی لمحے مجھے شام میں پوچھا گیا اس کا سوال یاد آگیا، کیا پیار سے بڑھ کر بھی دنیا میں کوئی چیز ہے؟؟؟۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں