سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی بدنیتی

0
101

تحریر: ایڈووکیٹ خالد حسین تاج

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی بدنیتی پر مبنی ایک غلط فیصلے نے سپریم کورٹ کے ججز میں دراڑیں ڈال دیں اور آج سپریم کورٹ دو حصوں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔

مئی 2018 سے لیکر جنوری 2022 تک ان چار سالوں کے دوران سپریم کورٹ میں آٹھ ججز کی تقرریاں ہوئی، ان آٹھ ججز میں سے 6 جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا جبکہ دل2 سینئر موسٹ ججز کی تقرری ہوئی۔

جسٹس ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس 2 سال کے عرصے میں ہائیکورٹ کے 4 ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا، ان میں سے 3 ججز جسٹس سجاد علیشاہ، جسٹس منصور علیشاہ، جسٹس یحیی آفریدی کو سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس منیب اختر کو آٹھ مئی 2018 کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی اس تعیناتی میں بدنیتی واضح تھی کیونکہ ثاقب نثار نہیں چاہتا تھا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی زیادہ عرصہ چیف جسٹس آف پاکستان رہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے منیب اختر کو چوتھے نمبر سے سپریم کورٹ کا جج لگا کر یحیٰی آفریدی کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان ایک سال اور 16 دن کم کیا۔ جب جسٹس دوست محمد 20 مارچ 2018 کو ریٹائر ہو ہے تو جسٹس دوست محمد کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا ان کی جگہ یحیی آفریدی کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنا تھا، جسٹس ثاقب نثار نے وہ تعیناتی نہیں کی۔ 20 مارچ 2018 سے لیکر آٹھ مئی 2018 تک 48 دن گزار دیے مگر یحیی آفریدی کو سپریم کورٹ تعینات نہیں کیا، 8 مئی 2018 میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کے بجائے چوتھے نمبر پر موجود جسٹس منیب اختر کو سپریم کورٹ کا جج لگایا۔ جسٹس احمد علی شیخ کو سپریم کورٹ کا جج لگاتے تو جسٹس احمد علی شیخ 3 اکتوبر 2026 کو ریٹائر ہوتے، اس طرح یحیٰی آفریدی، جسٹس منصور علیشاہ کے ریٹائرمنٹ کے بعد 28 نومبر 2027 سے لیکر 23 جنوری 2030 تک یعنی دو سال 1 مہینہ اور 25 دن چیف جسٹس رہتے۔

جسٹس ثاقب نثار نے بدنیتی سے یحیٰی آفریدی کا ایک سال اور 16 دن جسٹس منیب اختر کو چوتھے نمبر سے جج بنا کر اس کو دیدیا۔ سپریم کورٹ کے خیبر پختونخوا سے خالی سیٹ کو 20 مارچ 2018 سے لیکر 28 جون 2018 یعنی 3 ماہ دس دن تک خالی رکھا، پھر 28 جون 2018 کو جسٹس یحیی آفریدی کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا۔

جسٹس ثاقب نثار نے پہلے سے ہی پلان بنایا تھا کہ جسٹس منیب اختر کو کسی بھی صورت میں جسٹس یحیی آفریدی سے پہلے سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنا ہے۔ جسٹس منیب اختر کے بعد جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں لانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جسٹس منیب اختر کے بعد سپریم کورٹ میں چار سال کے عرصے میں 7 ججز کا تقرر ہوا، ان 7 میں سے 5 جونیئر جج تھے جبکہ دو جج سنیارٹی کی بنیاد پر تعینات ہوئے، ان میں جسٹس یحیٰی آفریدی اور جمال مندوخیل شامل ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار کے ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس بنے، بطور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے دور میں ہائی کورٹ سے دو ججز کو سپریم کورٹ تعینات کیا دونوں جونیئر جج تھے، سنیارٹی لسٹ میں 26ویں نمبر پر موجود جسٹس قاضی آمین کو بطور ہائی کورٹ جج ریٹائرمنٹ کے ایک ماہ بعد سپریم کورٹ کا جج لگایا گیا۔ اس کے علاوہ سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر موجود جسٹس آمین الدین کو بھی سپریم کورٹ کا جج بنایا، اس کے بعد گلزار احمد چیف جسٹس آف پاکسان بنے، جسٹس گلزار احمد کے دور میں ہائی کورٹ سے 4 ججز کو سپریم کورٹ تعینات کیا گیا۔ ان چار میں سے تین جونیئر جج تھے، ان میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو تیسرے نمبر سے، جسٹس محمد علی مظہر کو پانچویں نمبر سے جبکہ عائشہ ملک کو چوتھے نمبر سے سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔

جسٹس گلزار کے دور میں سنیارٹی کی بنیاد پر صرف جسٹس جمال خان مندوخیل سپریم کورٹ کا جج بنے۔ اب اگلے چیف جسٹس عمر عطا بندیال دو فروری 2022 کو چیف جسٹس آف پاکستان بنیں گے، ان کے دور میں سپریم کورٹ میں پانچ ججز کی تعیناتی ہونی ہے۔ سپریم کورٹ کے جو 5 ججز اس سال ریٹائر ہونگے ان میں سندھ کے صوبے سے تعلق رکھنے والے جسٹس گلزار احمد، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علیشاہ جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے جسٹس قاضی آمین اور خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل شامل ہیں۔

دیکھتے ہیں جسٹس عمر عطا بندیال ہائی کورٹ کے سینئر ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کرتے ہیں یا جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کی طرح جونیئر ججز کو تعینات کریں گے۔

میرا نئے چیف جسٹس کو یہی مشورہ ہوگا ہے کہ اس سال جو پانچ مزید ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی ہونی ہے اس سے پہلے ایک میکینزم بنایا جائے، جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کی صوابدیدی اختیار کو کم کیا جائے۔ چیف جسٹس نام تجویز کرنے سے پہلے جوڈیشل کمیشن کے ممبران جن میں سپریم کورٹ کے 4 اور ججز بھی شامل ہیں ان کو اعتماد میں لے کر نام تجویز کیا جائے. اس طرح یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ من پسند ججز کی تقرری کا تاثر بھی ختم ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں