تحریک پاکستان میں علماء کا کردار

0
701

  تحریر: احسان اللہ خان

ہندوستان میں تحریک آزادی سے لے کر قیام پاکستان تک علماء حق نے جوکردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ جو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیئے تاریکی میں روشنی کے مینار کی مانند ہے۔ تحریک پاکستان اصل میں مسلمانوں کے قومی تشخص اور مذہبی ثقافت کے تحفظ کی وہ تاریخی جدوجہد تھی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور بحیثیت قوم ان کی شناخت کو منوانا تھا۔ جس کے لیے علحیدہ مملکت کا قیام از حد ضروری تھا۔ یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940کے جلسے کو قرار دیا جاسکتا ہے مگر اس کا اصل آغاز تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے ہندو نواز تنظیم کانگریس سے اپنی راہیں جدا کرلی تھیں۔ 1930 ء میں علامہ اقبال نے آلہ آباد میں مسلم لیگ کے ایکسیویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر بر صغیر کے شمال مغرب میں جدا گانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کردیا۔ چودھری رحمت علی نے اسی تصور کو 1933 میں پاکستان کا نام دیا۔ 

سندھ مسلم لیگ نے 1938 میں اپنے سالانہ اجلاس میں برصغیر کی تقسیم کے حق میں قرار دادپاس کرلی۔ قائداعظم نے1940 تک رفتہ رفتہ قوم کو ذہنی طور پر تیار کرلیا۔ 

لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک آزادی 1857سے بھی پہلے شروع ہوچکی تھی، جس میں علماء کرام نے بھر پور کردار ادا کیا تھا۔ اور بقول بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کہ ”پاکستان کی بنیاد اس وقت پڑچکی تھی جب سندھ کی سرزمین پر پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا“۔ تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے۔ تو 1600ء کے بعد انگریز بر صغیر میں داخل ہوئے اور یہاں کی آزادی پر ڈاکہ ڈالا، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر تجارت کی غرض سے انگریز ایشیا میں داخل ہوئے۔ رفتہ رفتہ سازشوں کا جال بچھا کر انگریز نے اپنی حالت کو مستحکم کیا، اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور بہت سے علاقوں پر انگریز قابض ہوگئے اور اپنی سازشوں کو وسیع کرتے ہوئے بنگال اور میسور کی طرف بڑھے۔ میرجعفر کی غداری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 1757ء میں نواب سراج الدولہ اور میر صادق غدار کو ساتھ ملا کر حیدر علی کے بیٹے فتح علی سلطان ٹیپو کو شہید کرکے اپنا تسلط جمایا حتیٰ کہ 1843ء میں سندھ پر حکومت کی۔ پھر پنجاب کی طرف بڑھے اور 1857ء تک پورے جنوبی ایشیا پر حکومت کرلی، جو سود اگرد بن کر آئے تھے اب پورے ہندوستان اور جنوبی ایشیا پر قابض ہوچکے تھے۔ ان حالات میں آزادی کا تصور کسی کے حاشیہ خیال میں نہ تھا۔ سات سمندر پار آنے والے گورے نے یہ نعرہ لگایا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے بلکہ تکبر وغرور میں ایک گورے نے یوں کہا ”اگر آسمان بھی اس پر گرنا چاہے تو ہم اسے اپنے سینگوں کی نوک پرروک لیں گے“ لیکن لِکُلَ فرعَون موسیٰ کے تحت 1728 ء میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور آپ کا خاندان اسلام اور مسلمانوں کی سر بلندی کے لیے میدان میں آئے۔1803ء میں محدث دہلوی شاہ عبدالعزیز ؒ نے انگریزوں کے خلاف جھاد کا فتویٰ صادرکیا اورتحریک شروع ہوئی، اس تحریک کی کمان سید احمد شہید ؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ نے سنبھالی تھی اور بے شمار علاقوں میں انگریز کو شکست سے دو چار کیا تھا، 1831ء میں یہ دونوں حضرات بالا کوٹ کے مقام پر بے شمار رفقاء کے ساتھ شہید ہوگئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کا اہم ترین معرکہ ”شاملی“ کے میدان میں لگا، جہاں انگریز کو سخت جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس معرکے کے سپہ سالار حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ تھے اور ان کے خاص کمانڈروں میں حافظ محمد ضامن،مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی ؒ جیسے جلیل القدر علماء شامل تھے۔ اس معرکے میں بے شمار علماء وطلبہ شہید ہوئے اور مسلمانوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ انگریزوں نے نظر یاتی طور پر اُمت مسلمہ کو اپنا غلام بنانے کے لیئے ایسے لوگ تیار کیئے جو اسلا م کا لبادہ اوڑھ کر انگریز کے نظریات کی ترویج کریں اور مرزاغلام احمد قادیانی اور اِن جیسے لوگوں کو تیار کیا جنھوں نے جہاد کی تنسیخ کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ قافلہ اہل حق کو غدار قرار دیا اور قولا ً وعملاً انگریز کے نظریات کی اشاعت کی۔حتی’ کہ لارڈ میکالے نے نعرہ لگایا کہ ”ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں اور ذہن ودماغ کے اعتبار سے انگلستانی ہوں“۔ 

مسلمانوں پر یہ بڑا سخت وقت تھا کہ ان کو محض اسلام سے وابستگی کی سزادی جارہی تھی۔ مولانا فضل حق خیر آبادی ؒ ودیگر علماء کو فتویٰ جہاد کے جرم میں کالے پانی (جزائر انڈومان) کی سزا دی گئی۔ اور مفتی کفایت علی کافی بدایونی ؒ کو جنگ آزادی کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

علماء حق نے نظریاتی سر حدات کی حفاظت کیلئےاور اپنی ذمہ دار یوں کا احساس کرتے ہوئے غلبہ اسلام کا بیڑا اُٹھایا اور مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے 31مئی 1867ء کو یوپی کے علاقے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور یہ اعلان کیا ” ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں اور ذہن ودماغ کے اعتبار سے اسلامی ہوں“۔ اور انار کی درخت کے نیچے بیٹھ کر محمود نامی استاد نے محمود نامی شاگرد کو پہلا سبق پڑھایا۔ حکیم الامت حضرت اشرف علی تھانوی رحمہ جو کہ دارالعلوم دیوبند کے سر پرست اعلیٰ تھے، نے سب سے پہلے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا تصور پیش کیا اور قائد اعظم اور مسلم لیگ کے سیاسی موقف کی مکمل حمایت کی اور اپنے ہزاروں متعلقین کو قیام پاکستان کے جدوجھد میں مصروف کیا۔ علماء اہل حق کی محنت سے مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کا لگایا ہوا پودا انگریز کے خلاف بہت بڑا محاذ ثابت ہوا اور ایسا تناور درخت بنتا جارہا تھا جس کے پھلوں سے برصغیر میں بستی بستی اسلام سے لوگوں کا رشتہ مضبوط ہورہا تھا، حتیٰ کہ پہلا طالب علم جو بعد میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے نام سے مشہور ہوئے، نے انگریزوں کو برصغیر سے نکالنے کے لیے باقاعدہ تحریک ریشمی رومال شروع کی۔ اِن اکابرکی محنت سے انگریز کی حکومت کمزور او ہندوستان میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ 

1917میں شریف مکہ کی غداری کی وجہ سے حجاز مقدس سے شیخ الہند کو گرفتار کرکے مولانا حسین احمد مدنی ؒ، مولانا عزیز گل ؒ، مولانا حکیم نصرت حسین ؒ، اور مولاناوحید احمد ؒ کے ہمراہ بحیرہ روم میں واقع جزیرہ مالٹاکی جیل میں جلاوطن کردیا گیا۔

1919میں مولانا محمد علی جوہر نے انگریز کیخلاف تحریک خلافت شروع کی، مولانا شوکت علی ؒ اور ابو الکلام آزادی ؒ جیسے عظیم قائدین بھی ساتھ تھے۔ ہندوستان کے تمام اکابر علماء نے سالہا سال کے مسلکی اختلافات کو نظر اندازکرکے تحریک خلافت کیلئے شانہ بشانہ کام کیا۔ 1920ء میں گاندھی جی اور مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے غیر ملکی مال کے بائیکاٹ اور ترک موالات کی تجویز پیش کی جو بہت کارگر ثابت ہوئی۔ 1921ء میں موہلا بغاوت،1922ء میں چورا چوری میں پولیس فائرنگ،1930ء میں تحریک سول نافرمانی، 1942 ء میں ہندوستان چھوڑوتحریک کے مظاہرروں پر پولیس فائرنگ سے ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔ عام مسلمانوں کے علاوہ شہید علماء کی تعداد بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ پھر مفتی محمد شفیع ؒ اور سید ابومحمد دیدار علی شاہ الوری ؒ نے ”مطالبہ پاکستان“ کو مدلل فتاویٰ کی صورت میں پیش کرکے تحریک آزادی پاکستان میں فیصلہ کن اور موثر ترین کردار ادا کیا۔

مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کے والد ماجد عبدالعلم صدیقی قاردی ؒنے قیام پاکستان کے مطالبے کو عالمی سطح پر اُ جاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مفتی محمد شفیع ؒ، مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، مولانا عبدالماجد بدایونی ؒ، مولانا عبدا لستار خان نیازی ؒ نے مسلم لیگ کی کامیابی کے لیے نتیجہ خیز کا وشیں سرا نجام دیں۔ جب مملکت خدادا پاکستان 14اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ھ میں حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پر اُ بھری تو قائداعظم نے علماء کرام کی قربانیوں کو سر اہتے ہوئے کراچی میں 15اگست1947 ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ سے اور مشرقی پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے بھانجے مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ کو تلاوت قرآن اور دعا کے بعد پاکستان کی پہلی پرچم کشائی کے اعزاز سے نوازا۔ قیام پاکستان کے بعد مبارکباد کے لیے مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا شبیر علی تھانوی اور مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ وغیرہ کی قیادت میں ایک وفد بانی پاکستان محمد علی جناح کے پاس پہنچا تو انھوں نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور کہا حضرات مبارکباد کے مستحق حقیقت میں آپ لوگ ہیں۔ اگر آپ کی کاوشیں اور محنتیں نہ ہوتیں تو کبھی پاکستان وجود میں نہ آتا۔11 ستمبر 1948 ء میں جب بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا اور تدفین تک سارے مراحل سر انجام دئیے۔ مارچ 1949 ء میں دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد کے عنوان سے قرار داد منظور کی تو اِن علماء کرام کی کوششوں سے اسلام کی بنیادی تعلیمات، اساسی احکامات اور اہم جز ئیات کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔

الغرض یہ علماء کرام ہی تھے جنہوں نے عوام کے اندر آزادی کے شعور کو اُجاگر کر کے اور دوقومی نظریہ کی حقیقی تصویر پیش کرکے آزادی پاکستان کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا یہاں تک آزادی کی خاطر قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کرکے قیامت آنے والوں کو پیغام دیا۔ 

 ہے جرم اگر وطن کی مٹی سے محبت 

 یہ جرم سدا میرے حسابوں میں رہے گا! 

الحمد للہ ان علماء کے روحانی اولاد آج بھی اس ملک عزیز پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ ان علماء کی ترجمانی امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے قیام پاکستان کے بعد درج الفاظ میں کی تھی: ”میری رائے کو خود فراموشی کانام نہ دو، پاکستان بننے پر بخاری کی رائے ہار گئی، پاکستان ہم نے ہزاروں بہنوں، بیٹیوں کی عصمتیں لٹا کر اور لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کا مچلتا ہوا خون پیش کرکے حاصل کیا ہے، اس وطن کی خاک کا ہر ذرہ مجھے پر عزیز چیز سے عزیز تر ہے،اسکی سالمیت اور تحفظ جزو ایمان ہے، واللہ با اللہ رب پاکستان نے جب بھی پکارا میں اس کی حفاظت کے لیئے ہر اول دستے کے طور پر پیش پیش رہوں گا، اس کی طرف جو آنکھ اُٹھی، پھوڑ دی جائے گی، جو ہاتھ اُٹھے، کاٹ دئیے جائیں گے۔ میراخون پہلے بھی تمہارا تھا، اب بھی تمہارا ہے، پاکستان کی حفاظت کے لیے کروڑوں عطاء اللہ بخاری قربان کیئے جاسکتے ہیں“۔ 

          خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اُ ترے 

           وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں