سندھ کے ہوم بیسڈ ورکرز کاغذی ‘قانون’ سے کب تک خواب بنیں؟

0
285
sssssssssssssss

تحریر: شفقت عزیز

 چمکتے موتیوں اورمخملی کپڑے سے بنائے گئے موبائل کورکافی جاذب نظر تھے، کراچی کے علاقے لانڈھی ٹو سی کے علاقے میں ایک کمرے کے مکان میں بیٹھی سعیدہ خاتون بڑی مہارت سے ایک موبائل کور پر موتی ٹانک رہی تھی، آس پاس تین چار مختلف رنگوں کے مزید موبائل کورپڑے تھے جنہیں لینے کیلئے آج بنوانے والوں نے آنا تھا، اس لیے سعیدہ کے ہاتھوں میں معمول سے زیادہ پھُرتی دکھائی دے رہی تھی۔ شہر میں جاری لاک ڈاؤن کی صورتحال میں سعیدہ کے لیے آج ہونے والی آمدن سب سے زیادہ ہوگی کیونکہ آج اسے پانچ کور بیچنے کے عوض ایک ہزار روپے ملیں گے۔

سعیدہ خاتون کروشیے کی خوبصورت بنائی سے نہ صرف موبائل کور بناتی ہے بلکہ مختلف سائزاور رنگوں کے دیدہ زیب پرس، پاؤچ، بچوں کے جوتے، فیڈرکوراوردوپٹوں پرکشیدہ کاری بھی کرتی ہے۔ سعیدہ خاتون کہتی ہیں کہ 6 سال پہلے میں ہسپتال گئی تھی تواپنی باری کیلئے انتظار کے دوران پاس بیٹھی خاتون کو کروشیے کا کام کرتے دیکھا تو مجھے بھی شوق پیدا ہوا۔ سیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اس کام میں مہارت پیدا ہوئی تویہی کام آمدن کا ذریعہ بن گیا۔ دو بچیوں کی شادیاں کیں جن کا جہیز بنانے کے لئے بھی یہی ہنر کام آیا۔ سخت محنت کرنی والی سعیدہ کو گلہ ہے کہ اسے وہ صلہ نہیں ملتا جس کی حقدار ہے۔ کبھی بازار جانے کا اتفاق ہو تو سعیدہ کا شکوہ کناں دل اپنی محرومی پرکڑھنے کےعلاوہ کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ وہی موبائل کور جو وہ دو سو سے ڈھائی سو روپے میں فروخت کرتی ہے، بازارمیں پانچ سو سے آٹھ سو روپے میں فروخت کیا جارہا ہوتا ہے۔

دو ماہ سے سخت لاک ڈاؤن کے سبب سعیدہ کے پاس کام نہ ہونے کے برابرہے۔ گزشتہ ماہ اس نے صرف تین ہزار روپے کمائے، اسی لیے موجودہ حالات میں اگرکسی کام میں دس یا بیس روپے بھی بچ رہے ہوں تو وہ کرلیتی ہیں۔ سعیدہ کا شوہرگارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا تھا لیکن دو سال سے بیروزگار ہے۔ ناسازی طبع اورعمر ذیادہ ہونے کے باعث کہیں دوسری جگہ بھی کام نہیں ملتا، اسی لیے گھرکے خرچ کا بوجھ سعیدہ کے نازک کندھوں پرہی ہے۔

گھر سے کام کرنے والی سعیدہ اور اس جیسی لاکھوں ہوم بیسڈ ہوم ورکر اپنے حق سے محروم کیوں رہ جاتے ہیں؟ جان مارکر بھی انہیں ان کے کام کا وہ معاوضہ کیوں نہیں ملتا جس کے وہ حقدارہیں؟ دیکھا جائے تو سندھ میں ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ 2018 پاس تو ہوگیا لیکن اس پرعمل درآمد ابھی تک نہیں ہوسکا۔ قانون کے تحت تمام گھریلو مزدوروں کی رجسٹریشن کی جائے گی، ان کو دی جانے والی اجرت کا تعین کیا جائے گا اور مڈل مین کو بھی قانون کے دائرہ میں لایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سالانہ بجٹ میں گھر مزدوروں کی فلاح بہبود کے لئے رقم مختص کی جائے گی۔ لیکن افسوس کہ گھریلو مزدوروں کو سنہرے سپنے دکھانے والا یہ قانون فی الحال کاغذ پر ہی موجود ہے اور عملی اقدامات سے کوسوں دورنظرآتا ہے۔

جامعہ کراچی کی ویمن اسٹڈیزاورشعبہ سوشل ورک کی سربراہ ڈاکٹرنسرین اسلم شاہ بھی ہوم بیسڈ ورکرز کی فلاح بہبود کے لیےکام کرنے والا ایک نمایاں نام ہیں۔ انہوں نے ہوم بیسڈ ورکرزکو سپورٹ کرنے والی ایک چھوٹی سی انجمن بھی بنا رکھی ہے۔

کراچی میں سوشل ورک میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز رکھنے والی نسرین اسلم کے مطابق ہوم بیسڈ ورکرز کے کام کوحکومتی سطح پراجاگر کیا جائے تو یقینا وہ معیشت کے اہم ستون بن کرابھریں گی کیونکہ وہ نہ صرف گھریلو سطح پر بلکہ صنعتی سطح پر بھی بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ خاص طور سے غریب ممالک میں ان خواتین کا معاشی ترقی میں بہت بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے سال 2011 میں کچھ خواتین کودس دس ہزار روپے قرض دیا تھا تاکہ وہ اپنے پیروں پرکھڑی ہو جائیں ان میں سے ایک سعیدہ خاتون بھی تھیں جنہوں نے دس ہزارروپے کا قرض دس ماہ میں لوٹا بھی دیا۔

ڈاکٹرنسرین اسلم نے بتایا کہ قوت گویائی و سماعت سے محروم لانڈھی کی ہی رہائشی دو بہنیں 62 سالہ رشیدہ اور 60 سالہ ثمینہ بچپن سے قالین سازی سے وابستہ ہیں یہ پیشہ ان کے آباؤ اجداد سے چلا آ رہا ہے لیکن پوی مہارت کے باوجود انہیں ان کا حق نہیں ملتا۔ مڈل مین اورشورومز والے زیادہ منافع کماتے ہیں اورمعمولی حصہ قالین بنانے والوں تک پہنچتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹرنسرین اسلم نے بتایا کہ ملکی زرمبادلہ میں اضافے کے لیے ہمیں ایسی مصنوعات کی برآمد کو فروغ دینا ہو گا جو غیررسمی شعبوں میں کام کرنے والے افراد خاص طورسے ہوم بیسڈ خواتین کی تیارکردہ ہوں مثلا قالین بافی، رلی کا کام، سندھی/ بلوچی کڑھائی، ہاتھ کی بنی ہوئی چوڑیاں وغیرہ۔ اس طرح قومی معیشت بھی مستحکم ہو گی اور ساتھ ہی مقامی مارکیٹ کو بھی فروغ ملے گا۔ ان کے کام کو حکومتی اور قومی سطح پر اہمیت دیتے ہوئے مارکیٹ تک ان کی پہنچ آسان بنائی جائے اور ورکشاپس کے ذریعے مزید شعور پیدا کیا جائے۔

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیربرائے محنت وافرادی قوت سعید غنی نے کہا کہ  سندھ ہوم بیسڈ ورکرز کے لئے قانون سازی کرنے والا نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی پہلا صوبہ ہے جس نے گھریلو مزدوروں کو شناخت دی ۔ ان کی رجسٹریشن کا کام شروع ہونے والا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے یہ پروگرام تاخیرکا شکارہو گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ہوم بیسڈ ورکرزکی ایک کونسل قائم کردی گئی ہے جس میں حکومتی اور ورکرز کے نمائندے شامل ہوں گے۔ وزیراعلی کی جانب سے منظوری کے بعد کونسل سب سے پہلے گھریلو ورکرز کی رجسٹریشن کرے گی، جس کے بعد ان کی فلاح و بہبود کیلئے اسکمیں بنائی جائیں گی۔

دوسری جانب سیکرٹری لیبررشید سولنگی کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق صوبے میں تیس سے پچاس لاکھ گھریلو مزدور ہیں جن کی بڑی تعداد ٹیکسٹائل، گارمنٹ کے کام سے وابستہ ہے۔ زرمبادلہ بھی انہیں صنعتوں سے آتا ہے اس لیے ہم نے کورونا کے دوران پہلے فیز میں 800 فیکٹریوں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس کے علاوہ صوبے میں چوڑی کی صنعت، گھریلو کشیدہ کاری، مٹی اور لکڑی کے برتن، جوتے اور کھانے پینے کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی گھروں میں کام کرتے ہوئے اپنا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ ملکی معشیت میں بھی اہم کردارادا کر رہے ہیں۔

رشید سولنگی کے مطابق ہوم بیسڈ ورکرزکونسل سے رجسٹریشن کے بعد گھریلو مزدور نہ صرف اپنے حق کے لیےعدالت جاسکتے ہیں، اپنی یونین بنا سکتے ہیں بلکہ وہ تمام سہولیات حاصل کرسکتے ہیں جو ایک فیکٹری ورکرز کو ملتی ہیں۔

یہ تو تھا حکومتی موقف۔ کاغذی کارروائیاں یا حکومتی نمائندوں کے دعوے ایک طرف لیکن عملی اقدمات کے بغیر ہوم بیسڈ ورکرز کااستحصال ہوتا رہے گا۔ اسی حوالے سے مزید جاننے کیلئے ہم نے

ہوم نیٹ پاکستان نامی این جی او سے بات کی جو گھریلو ورکرز کی فلاح و بہبود اور انہیں قانونی مشاورت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اور مالکان کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔

ہوم بیسڈ وویمن ورکرز فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری زہرہ خان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے کام کا آغاز 2009 میں کیا کیونکہ صوبے میں قانون نہ ہونے سے ورکرز کو ان کا جائز حق نہیں مل پاتا تھا۔ ہماری کوشش ہے کہ ہر کام کا معاوضہ طے ہو جیسے کہ چوڑی بنانے والی صنعت، گھریلو دستکاری، جوتے کی صنعت وغیرہ اور جو مرد و خواتین گھر میں رہ کر کھانے پینے کے کام سے وابستہ ہیں ہمیں حکومت کے ساتھ مل کر ان کا معاوضہ بھی طے کرانا ہے۔

زہرہ نے مزید کہا کہ ہوم بیسڈ ورکر کا قانون تو بن گیا لیکن اس کا نفاذ سست روی کا شکار ہے۔ موجودہ حالات میں کورونا وائرس کے سبب گھریلو مزدوروں کا کام بھی شدید مندی کا شکارہے، اگرآج یہ رجسٹرڈ ہوتے تو موجودہ حالات میں حکومتی قرض اسکیم سے مستفید ہوپاتے۔

اچھے دنوں کا انتظار کرتے ان ہوم بیسڈ ورکز کیلئے اقبال کا یہ شعر انتہائی مناسب لگتا ہے۔

تو قادر وعادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں