نئے ایرانی صدر، درد یتیمی سے کرسی صدارت تک

0
68

کراچی: سید ابراهیم رئیسی 1960 میں ایران کے شہر “مشہد” میں پیدا ہوئے اُن کا شجرہ نسب دونوں طرف سے حسینی سادات سے متصل ہے وہ ابھی 5 سال کے تھے کہ والد گرامی کا انتقال ہو گیا۔ سید ابراهیم رئیسی نے درد یتیمی کے سائے میں اپنی سکول اور دینی تعلیم کا آغاز کیا ساتھ کم سنی میں گزر اوقات کے لیے محنت مزدوری بھی کرتے رہے اور پھر 15 سال کی عمر میں سرچشمہ علم و قیام یعنی قم المقدس تشریف لے گئے اور تیزی سے علم و معارف اہلبیت ع کی رائج سطوح طے کرنے لگے۔ ابراہیم رئيسی نے دینی تعلیم میں اجتہاد کی ڈگری کے حصول کے ساتھ، رائج یونیورسٹی کے مراحل میں حقوق بین الملل (International law) میں ایم فِل اور پھر فقہ و حقوق خصوصی (private law) میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔

 سید ابراهیم رئیسی کے امتیازات میں سے ہے کہ شہید بہشتی، شہید مرتضی مطهری اور رہبر انقلاب اسلامی جیسی جیّد شخصیات آپکے اساتذہ کی فہرست میں شامل ہیں آپ حقوق (law) کے موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف اور ساتھ تہران میں فقہی علوم کی فوق تخصصی سطوح میں درس خارج کے استاد بھی ہیں۔ ابراهیم رئیسی، ایرانی سپریم لیڈر کو منتخب کرنے والی مجلس خبرگان ( Council of Experts) کے نائب رئیس ہیں آپکی بیگم، محترمہ جمیلہ علم الھدی، فلسفہ تعلم و تربیت میں پی ایچ ڈی ہولڈر اور ایران کی پہلے درجے کی خاتون اسکالر ہیں۔

1979 میں ایران میں انقلاب اسلامی کے بعد ابراهیم رئیسی کو 20 سال کی عمر میں تہران سے متصل شہر کرج کی عدالت میں ڈسٹرکٹ اٹارنی تعینات کیا گیا کیونکہ آپ کا تعلق معاشرے کے پِسے ہوئے طبقے سے تھا اسی لئے آپ عدالتی امور اور ستم دیدہ افراد کی دادرسی میں تأخیر کے قائل نہ تھے۔ حتی امام خمینی رح نے ان کام کی سرعت اور کارکردگی دیکھ کر 27 سال کی عمر میں کئی صوبوں کی عدالتی نگرانی ان کے حوالے کر دی اور مزید برآں، کچھ عرصہ بعد ایران کی کئی حساس فائلیں بھی آپ کے سپرد کیں۔ سید ابراهیم رئیسی کو 2015 میں عدلیہ کی گونا گوں مصروفیات کے باوجود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے 7 راہنما اصول دے کر متولی حرم امام رضا ع مقرر کر دیا وہاں ابراہیم رئيسی کی دن رات انتھک کوششوں اور حرم مطهر کی تخصصی فعالیتوں نے ایران میں ایک غوغا برپا کر دیا۔ حرم امام رضا ع کے آستانہ اقدس سے کئی تجارتی کمپنیاں، فیکٹریاں، فارمز، اسپیشل تربیّتی کورس، 2800 ثقافتی فعال گروہ اور دیگر کئی اصلاحات متعارف کروائی گئیں یہاں تک کہ یہ جملہ مشہور ہو گیا کہ شاید ہی ایران میں کوئی ایسا گھر ہوگا کہ جس میں آستانہ حرم امام رضا ع کی اپنی مصنوعات کی نشانی نہ ہو۔

ابراہیم رئيسی کی تاریخ ساز کارکردگی کی وجہ سے انھیں 2019 میں ایران کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا جہاں انھوں نے عدالتی اصلاحات بروئے کار لاتے ہوئے، ایک طرف عدلیہ جیسے مقدس شعبے میں گھسی کالی بھیڑوں کو نکال باہر کیا تو دوسری طرف بلا امتیاز کارروائی کرتے ہوئے کئی موٹی گردن والوں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا نیز سستا انصاف فراہم کرتے ہوئے کئی ہزار قابل عفو قیدیوں کو رہبر معظم انقلاب کی موافقت سے آزاد کیا اور فوری انصاف کی فراہمی کے لئے کئی نئے شعبے اور ایپس متعارف کروائیں۔ اُن کی اسی بے لوث اور انتھک خدمت کی وجہ سے ایرانی عوام نے ایک دردمند یتیم کو صلاحیت کی بنا پر اپنا نیا صدر منتخب کیا ہے اور اس مغربی سازشوں کے دور میں کسی شخصیت کا سیاسی میدان میں اپنا لوہا منوانا، معجزے سے کم نہیں ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں