تفتیشی پولیس اور زلتوں کے مارے لوگ

0
119

تحریر: نوید کمال

انیسویں صدی میں مشہور روسی مصنف فیودر دستوفیسکی نے ایک تنصیف لکھی ‘the insulted and humiliated peoples’۔
اردو ترجمہ، ‘زلتوں کے مارے لوگ’ یہ مجھے روسی ادب سے زیادہ اس معاشرے کی داستاں لگتی ہے معاشرے میں بکھری ناانصافی اور طبقاتی نظام کی کہانیاں ایسا لگتا ہے دستووسکی مستقبل میں جھانکتا تھا اور اس معاشرے کی عکاسی کرگیا۔ آج آپ کی اور میری ناک کے نیچے ہونے والی ایک زلت کی داستاں سناتا ہوں، یہ کسی کی کامیابی یا ناکامی کی کہانی نہیں یہ محبت یا نفرت کی داستان بھی نہیں یہ ظلم کی کتھا ہے۔ زلت اور عزت کے درمیان رہ کر جینے والے کروڑوں نوجوانوں میں سے ایک کی کہانی زندگی مقررہ حد سے زیادہ زلت اور تزلیل برداشت نہ کرسکی، اور زلت سہتے خاتمہ ہوگیا۔

لیاقت آباد میں پرورش پانے والے اس نوجوان کی آنکھوں میں بھی خواب تھے، برسر روزگار ہوا تو گھر کے قریب رہنے والی لڑکی سے دل لگا بیٹھا حاصل عشق، محبت کا بنیادی اصول ہے، آسیہ کے گھر والے نہ مانے تو کورٹ میرج کی مشتعل اہلخانہ نے لڑکی کے اغوا کا مقدمہ کرادیا۔ نبیل نے ضمانت لے لی، تفتیشی پولیس قاتل کو پچھلی گلی سے پکڑنے نہ جائے لیکن چیک بائونس یا پسند کی شادی کے معاملے میں درج مقدمات کے لئے پشاور بھی پہنچ جاتی ہے، نو بیہاتا جوڑے نے تھانے جاکر بیان درج کرایا ضمانت سے آگاہ کیا لیکن شریف آباد تھانے کا تفتیشی افسر عامر اس عشق کی داستان میں، لا حاص، نہیں رہنا چاہتا تھا۔ پولیس موبائل لی اور نبیل کے گھر غیر قانونی چھاپہ مارا ضمانت پر ہونے کے باوجود چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا، نبیل کے والد کو گریبان سے پکڑا، تشدد کیا پچاس ہزار رشوت طلب کی اور نہ دینے پر ڈکیتی کے مقدمے میں گرفتار کرنے کی دھمکی دی۔ پولیس گھر میں تھی محلہ کا ہجوم گھر کے باہر لوگوں کی باتیں اور زلت مقدر بن گئی، نبیل پانچویں منزل سے کود گیا اور زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

نبیل کا زلت کا سفر ختم ہوگیا انکوائری ہوئی تفتیشی پولیس قصور وار نکلی نبیل کا باپ معاشرے کا زلت کا مارا انسان ہے، کہتا ہے مقدمہ درج نہیں کرا سکتا گھر میں بھوک اور افلاس ہے، وکیلوں کی جیبیں نہیں بھر سکتا، معاملہ اوپر عدالت پر چھوڑتا ہوں، آپ اگر صاحب حیثیت ہیں آپ پولیس کے اعلی افسر ہیں، وکیل ہیں، جج ہیں، صحافی قلمکار ہیں، کسی شام مضافاتی یا درمیانی آبادی کی تھانے جائیں آپ کو ڈرے سہمے زلتوں کے مارے لوگ باہر کھڑے نظر آئیں گے۔

ان کی نظروں میں خوف اور بلا وجہ کی عاجزی آپ کو شرمندہ کردیگی یہ فیکٹریوں، مالک مکانوں، سیٹھوں سے زلیل ہوکر انصاف کے متلاشی سرکاری دفتروں اور تھانوں میں بھی زلیل ہوتے ہیں، ان کی زلت کا سفر موت کے ساتھ اختتام پزیر ہوتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں