رام پیاری محل، لازوال محبت کی ایک اور نشانی

0
42

تحریر: آغا نیاز مگسی

گجرات شہر کے بیچوں بیچ جاتی سڑک جس کو آج کل سرکلر روڈ کہا جاتا ہے، کبھی رام پیاری روڈ کہلاتی تھی کیونکہ اس سڑک پر ایک تاریخی محل ہے واقع ہے جس کا نام ’رام پیاری محل‘ ہے۔

یہ ’رام پیاری محل‘ اپنے اندر گجرات کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ سموئے ہوئے ہے۔

گجرات کے قصبہ ڈنگہ کے مشہور اور مالدار تاجر راجہ سندر داس نے یہ محل اپنی تیسری بیوی رام پیاری کی محبت میں تعمیر کروایا تھا جو 1917 میں مکمل ہوا۔
راجہ سندر داس 1880 میں پیدا ہوئے اور 1920 میں وفات پا گئے یعنی ان کا کل عرصہ حیات چالیس سال پر محیط رہا۔ انہوں نے جب رام پیاری سے شادی کی تو اس کی عمر 12 سال تھی جبکہ راجہ سندر داس اس وقت 36 سال کے تھے۔ ان کے آبائی قصبے ڈنگہ میں آج بھی سندر محل اور محلہ سندر داس موجود ہیں۔

راجہ سندر داس نے اپنی بیوی کی محبت میں صرف محل ہی تعمیر نہیں کیا بلکہ گجرات سے ڈنگہ آنے والی سڑک کا نام بھی ’رام پیاری روڈ‘ رکھا جسے اب ڈنگہ گجرات روڈ کہا جاتا ہے۔

’رام پیاری محل‘ کو یونانی اور رومن طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو سامنے ایک پر شکوہ عمارت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے اور اپنی عظمت رفتہ کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔

دس کنال کے رقبے پر پھیلے اس دو منزلہ محل میں چھوٹے بڑے 42 کمرے اور چار تہہ خانے ہیں۔ عمارت کے اندر فرش پر ہندوستانی جبکہ دیواروں پر لگائی گئی فرانسیسی ٹائلیں راجہ سندر داس کے خاندان کی امارت کا پتہ دیتی اور محل کو دیدہ زیب بنا رہی ہیں۔

کسی زمانے میں اس حویلی کے روشن دانوں سے جب فانوس کی روشنیاں ٹکراتی تھیں تو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے۔ اس وقت اس محل میں لکڑی کا کام اپنی مثال آپ تھا۔  وقت گزرنے کے ساتھ یہ کام بھی معدوم ہو گیا۔
اس محل کے دروازے، چھتیں، ستون اور محرابیں اتنی ہی پر کشش ہیں جتنا لاہور اور دہلی کا مغل آرٹ۔
مرکزی ڈیوڑھی کے ستونوں کے اوپری حصہ پر ہندو مذہب کی مناسبت سے دیویوں کی مورتیاں بھی نصب کی گئی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ راجہ کیدار ناتھ نے رام پیاری کے خاندان سے رشتہ داری کے بعد اس کے قریب ہی ایک اور حویلی تعمیر کی جسے کیدار ناتھ حویلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

راجہ سندر داس تو اپنی شادی کے چار سال بعد ہی وفات پا گئے تھے تاہم رام پیاری اور ان کا خاندان تقسیم ہندوستان تک اس محل میں قیام پذیر رہا۔

بعد ازاں وہ انڈیا ہجرت کر گئے۔ مقامی تاریخ دان بتاتے ہیں کہ رام پیاری کا خاندان اور وہ خود بھی ایک آدھ مرتبہ اس محل کو دیکھنے کے لیے آئیں۔ ان کا انتقال 1976 میں انڈیا میں ہوا۔

اس کالج میں پڑھنے والی طالبات کے لیے رام پیاری محل کو ہاسٹل میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس غرض سے اس میں کچھ اضافی تعمیرات بھی کی گئیں اور بوقت ضرورت چھتوں وغیرہ میں ترمیم بھی کی جاتی رہی۔

2004 میں حکومت نے اس محل کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے اس کو عجائب گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔

لیکن یہاں سے ہاسٹل ختم کروانے میں 14 سال لگ گئے اور یہ کام 2018 میں مکمل ہوا۔

گذشتہ کچھ سالوں سے محل کی مرمت و بحالی کا کام جاری ہے تاہم ابھی بھی عمارت کا اندرونی حصہ اور تہہ خانے خستہ حالی کا شکار ہیں۔

عجائب گھر کے نام پر اس عمارت کے اندر دو بڑے کمروں میں چند  نوادرات رکھے گئے ہیں، لیکن  گجرات کے عوام اس کو ایک مکمل تاریخی میوزیم میں بدلے جانے کے خواہاں ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں