کہیں دیر نہ ہو جائے!!

0
45

تحریر: طاہر محمود اعوان

لانگ مارچ کے اعلان سے معلوم ہوتا ہے کہ بیک ڈور رابطے اور مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے، یعنی الیکشن کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا اس لیے نوبت لانگ مارچ تک آگئی ہے۔

البتہ عمران خان کے ابتدائی موقف میں لچک نظر آئی ہے، پہلے وہ فوری الیکشن کا مطالبہ کر رہے تھے اب کہہ رہے ہیں اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کی فقط تاریخ دے دیں، یہ مثبت پیش رفت ہے۔

میرا نہیں خیال کہ یہ مطالبہ کوئی اتنا ناقابل عمل ہے جس کے لیے اس لانگ مارچ کو طاقت کے زور پر روکا جائے یا مزید افراتفری کا ماحول بنا کر ملک اور معیشت کو مزید نقصان پہنچایا جائے۔

حکومت بھی الیکشن چاہتی ہے اور عمران خان بھی یہی چاہتے ہیں، درمیان میں محض ڈیٹ اور ٹائم کا فرق ہے، یہ فرق مقتدر حلقے دونوں طرف کے لوگوں کو بیٹھا کر دور کر سکتے ہیں اور ملک ایک مزید برے بحران سے بچ سکتا ہے۔!

عمران خان عدم اعتماد سے اب تک بہت سمارٹ کھیلے ہیں، لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان بھی انھوں نے مختلف مراحل میں کیا تاکہ ہر مرحلے پر کچھ نا کچھ دبائو بڑھایا جائے اور اگر سٹیک ہولڈرز نے کوئی فیصلہ کرنا ہے تو ان کو بھی موقع مل جائے۔

اب بھی میرا خیال ہے کہ ایک دو روز میں تازہ ڈیویلپمنٹس ہوسکتی ہیں اور ممکن ہے لانگ مارچ کی نوبت نہ آئے۔ الیکشن سے کوئی انکار نہیں کر رہا، معاملات اتنے پیچیدہ نہیں ہیں کہ حل نہ نکالا جاسکے۔ الیکشن کی تاریخ کوئی بڑی ڈیمانڈ نہیں بہتر ہے اتحادی حکومت خود سے فیصلے کرے نا کہ لانگ مارچ کا انتظار کیا جائے۔

لانگ مارچ سے قبل اگر محض الیکشن کی تاریخ کا ہی اعلان کردیا جائے تو حکومت کو اخلاقی برتری مل جائے گی۔ بالفرض اگر اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ دو ماہ بعد کی دی جاتی ہے تو اس دوران اتحادی وہ تمام ضروری قانون سازی کرسکتے ہیں جس کے لیے انھوں نے اقتدار سنبھالا، اس کے بعد حکومت میں رہ کر اپنی مقبولیت مزید کم کرنے سے بہت بہتر ہوگا کہ الیکشن میں جائیں۔

دوسری صورت میں اگر لانگ مارچ کے دوران تاریخ دی تو عمران خان فاتح بن کر اسلام آباد سے واپس جائیں گے اور اس کا فائدہ انہیں اگلے انتخابات میں بھی ہوگا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں