دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے 260 سے زائد اداروں کے قائدین نمائندوں کا سربراہی اجلاس

0
336

بیجنگ (شِنہوا): دنیا بھر کےذرائع ابلاغ کے 260 سے زائد اداروں کے قائدین اور نمائندے میڈیا کے سربراہی اجلاس میں بہ نفس نفیس یا آن لائن اکٹھے ہوئے، تاکہ نوول کرونا وائرس کی وجہ سے درپیش چیلنجز اور مواقعوں کے ساتھ ساتھ عالمی وباء کی وجہ سے تشکیل پانے والے میڈیا کے نئے رجحانات سے نمٹنے کے لیے تعاون پر تبادلہ خیال کر سکیں۔

چوتھا عالمی میڈیا سربراہی اجلاس (ڈبلیو ایم ایس ) پیر کے روز منعقد ہوا۔ جس کی میزبانی چین کی شِنہوا نیوز ایجنسی نے کی اور جس کا موضوع “نوول کرونا وائرس کے اثرات کے تحت میڈیا کی ترقی کی حکمت عملی” پر مرکوز تھا۔

شرکاء نے میڈیا کی صنعت پر عالمی وباء کے اثرات کو تسلیم کیا اور نوول کرونا وائرس سے نمٹنے میں میڈیا کی ذمہ داریوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

عالمی میڈیا سربراہی اجلاس کے ایگزیکٹو صدر اور شِنہوا کے صدر ہی پنگ نے کہا کہ عالمی وباء سے بنی نوع انسان کی صحت کو خطرہ لاحق ہے اور میڈیا کے پاس ایک مشن موجود ہے جس کو مکمل کرنا ہے۔

انہوں نے عالمی میڈیا پر زور دیا کہ وہ تمام ملکوں کے اتفاق رائے اور اقدامات کی مکمل عکاسی کرے تاکہ نوول کروناوائرس کی عالمی وباء سے مشترکہ طور پر نمٹا جاسکے، احسن طریقے سے عالمی وباء کے خلاف کہانیاں بیان کرے، مثبت معلومات پھیلائے، عام لوگوں کے کارہائے نمایاں کی عکاسی کرے اور انسانی فطرت کا وقار بیان کرے۔

ہی پنگ نے کہا کہ لوگوں کے دلوں کو جوڑنے والے ایک پل اور سماجی ترقی اور پیشرفت کے لیے ایک محرک کے طور پر عالمی میڈیا کو اس وباءکے خلاف عالمی جنگ کے موقع پر یکجہتی کو فروغ دینے کے مشن کو انجام دینے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور انسانیت کی مشترکہ اقدار کی وکالت کرنے اور انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک برادری کی تعمیر کو فروغ دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

کیوڈو نیوز کے صدر اور ایڈیٹر انچیف تورو میزوتانی نے وائرس کی وجہ سے روبرو رابطے میں پیش آنے والے چیلنجز کے باوجود انٹرویوز کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کار کنان کو اپنے ذرائع سے بات کرنی چاہیے تاکہ مستند معلومات کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔

سربراہی اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ کٹھن چیلنجز کے باوجودیہ عالمی وباء نئے مواقع بھی ساتھ لائی ہے جس نے میڈیا اداروں کو جدت طرازی اور تبدیلی کو اپنانے پر مجبور کیا ہے۔

پرنسا لاطینہ کے صدرلیوس انریک گونزالیز ایکوسٹانے کہا کہ عالمی وباء نے میڈیا کے انضمام کو قبول کرنے کی ضرورت کو جنم دیا ہے اور میڈیا کو خبریں پھیلانے کے لیے مزید چینلز کھولنے کی نئی راہیں تلاش کرنی چاہیے۔ 2009میں اپنے آغاز سے ہی میڈیا تعاون کو فروغ دینا عالمی میڈیا سربراہی اجلاس کاایک اہم موضوع رہا ہے۔

عالمی میڈیا سربراہی اجلاس تقریباً 100 ملکوں اور خطوں کے 260 سے زائد میڈیا آؤٹ لیٹس اور اداروں پر مشتمل ہے اور اس کا طریقہ ہائے کار عالمی میڈیا کے لیے اعلیٰ درجے کی مواصلات اور رابطہ کاری کا ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔

ہی پنگ نے کہا کہ بیجنگ سے ماسکو تک، دوحہ سے بیجنگ تک یہ سربراہی اجلاس ہمیں ایک دوسرے کے قریب لایا ہے جبکہ تعاون اور تبادلے کے مفید نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ عالمی میڈیا سربراہی اجلاس کی ترقی کے لیے مشترکہ طور پر زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ تبادلے اور تعاون کو فروغ دینے، زیادہ کاروباری جذبے کے ساتھ جدت اور ترقی کی راہیں تلاش کرنے اور مشترکہ طور پر طریقہ ہائے کار وضع کرنےاور پلیٹ فارم بنانے کے لیے زیادہ عملی اقدامات اپنانے کی تجویز پیش کی۔

سربراہی اجلاس نے اپنے سرمائی کھیلوں کے تصویری مقابلے کے لیے انعامات کا بھی اعلان کیا، 65 ملکوں اور خطوں کے 870 فوٹو گرافروں کی جانب سے جمع کرائی گئی 2 ہزار 740 انٹریز میں سے کل 21 تصاویر (فوٹو سیریز) کو ایوارڈ دیا گیا۔

سربراہی اجلاس میں بہت سے شرکاء نے ٹوکیو اولمپکس کی کوریج کے اپنے تجربات شیئر کیے اور بیجنگ 2022 اولمپک سرمائی کھیلوں اور پیرالمپکس سرمائی کھیلوں کے بارے میں اپنی توقعات کا اظہار کیا۔
سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق سربراہی اجلاس نے افہام و تفہیم کو بڑھا تے ہو ئے دوستی کو فروغ دیا ہے جبکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر میڈیا کے تعاون کو آگے بڑھایا ہے، ہر ایک کی جیت پر مبنی ترقی کے حصول اور ملکوں کے مابین تعلقات کوفروغ دینے کےعمل کو آگے بڑھایا ہے۔

اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تقریب انسانیت کے مشترکہ مستقبل اور ایک بہتر دنیا کے ساتھ ایک برادری کی تعمیر کے لیے ایک طاقتور قوت کو یکجا کرے گی۔

ہی پنگ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم میڈیا کی سماجی ذمہ داری کو ذہن نشین رکھیں گے، اپنے دور کے سوالات کے صحیح جواب دیں گے، دنیا بھر میں وسیع تر اتفاق رائے پیدا کریں گے اور ٹھوس کوششیں کریں گے، ہم نوول کرونا وائرس کے خلاف عالمی جنگ میں اعتماد اور جنگی جذبے کوشامل کرنے کے قابل ہو جائیں گے اور میڈیا کی مشترکہ ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں