مولانا کے بھائی کی سندھ میں تقرری، ہنگامہ کیوں؟

0
36


تحریر:عبدالجبار ناصر

حکومت سندھ نے 23 جولائی 2020ء کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے گریڈ 19 کے افیسر انجینئر ضیاء الرحمان کو کراچی کے ضلع وسطی میں بطور ڈپٹی کمشنر تعینات کیا گیا ہے۔ یہ عمل موصوف کو خیبر پختونوا سے ڈیپوٹیشن پر لینے کے بعد کیا گیا اور پھر انکشاف ہوا کہ موصوف جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی ہیں۔ جو ویسے بھی دو سال سے مولانا فضل الرحمان کے بھائی ہونے کے جرم کی سزا تبدیلی سرکار میں کاٹ رہے تھے اور جب سے ایک طوفان بد تمیزی ہے۔ اس بدتمیزی میں وہ تمام مبینہ دانشور بھی شامل ہیں جو سندھ کے اندر بھی شہری علاقوں کے افسران کی دیہی علاقوں اور دیہی علاقوں کے افسران کا شہری علاقوں میں تقرری پر تعصب کا رنگ دیتے ہیں۔ بعض نے مولانا فضل الرحمان کی سابق صدرآصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے حالیہ ملاقات کو اس سے جوڑا۔ اس ضمن میں ہمارا موقف ہے کہ اگر اگر یہ ملاقات واقعی واقعی اسی سلسلے میں تھی تو پھر تینوں کی سیاست پر تھو تھو تھو

چند سوال
1۔ کیا پاکستانی آئین و قانون میں دوسرے صوبوں کے افسران کی تقرری ممنوع ہے؟
2۔ جواب نہیں میں ہے تو پھر یہ ہنگامہ اور طوفان بدتمیزی کیوں؟
3۔ جواب ہاں میں ہے تو پھر بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں جو دیگر صوبوں کے افسران ہیں، ان کی تقرری کا جواز کیا ہے؟
4۔ کیا ضیاء الرحمان کی تقرری میں آئین، قانون اور قوائط و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے؟
5۔ جواب ہاں میں ہے تو پھر حکومت کو متعلقہ حکام اورقانون شکنی میں ملوث ہیں تو مولانا فضل الرحمان کو بھی نشان عبرت بنانا ضروری ہے۔
6۔ جواب نہیں میں ہے تو پھر تعصب کو فروغ دینے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔
7۔ کیا سندھ میں کسی دوسرے صوبے کے افسر کی یہ پہلی تقرری ہے ؟
8۔ کیا سندھ کے افسران کی دیگر صوبوں میں تقرری نہیں ہوتی ہے؟
9۔ کیا سندھ کا کوئی افیسر کسی دوسرے صوبے میں اس وقت نہیں ہے ؟
10۔ کیا کسی افیسر کا کسی اہم شخصیت کا بیٹا اور بھائی ہونا جرم ہے ؟
11۔ یہ گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 73 سال تعینات ہونے والے افسران کس دنیا کے مخلوق ہیں؟
12۔ ہمارے آبائی صوبے گلگت بلتستان کے 10 میں سے تقریباً نصف سے زائد اضلاع میں دیگر صوبوں کے ڈپٹی کمشنرز ہیں، کیا ان کو نکال دیا جائے؟
13۔ بلوچستان میں دیگر افسران کی تعیناتی پر قوم پرستوں اور علیحدگی پسندوں کا جو اعتراض یا احتجاج ہے اس کو کیا کہیں گے؟

بہترین حل
کیا مولانا فضل الرحمان یا کسی بھی اہم سیاسی و مذہبی شخصیت کا بھائی، بیٹا یا قریبی عزیز ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کے جائز قانونی حق پر سوال اٹھاکر طرح طرح کے الزامات لگائے جائیں۔ ویسے کیا یہ بہتر حل نہیں کہ اہم شخصیات کی تمام ایسے عزیزوں کو زندہ درگور کیا جائے کیونکہ عمران خان کی طرح مکمل خاندانی لاوارث تو کوئی بھی نہیں ہوسکتا ہے۔

آخری بات
اس بار طے کریں کہ کسی صوبے کے صوبائی کیڈر کا کوئی بھی افیسر کسی دوسرے صوبے میں ڈیپوٹیشن پر تعینات نہیں ہوگا تاکہ 73 سال کے بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے دکھوں کا مداوا اور ان کی 73 سالہ شکایات کا ازلہ ہو اور روز روز کی چک چک بھی ختم ہو۔

درخواست
تمام احباب سے درخواست ہے کہ کسی بھی ایشو پر ہنگامہ بپا کرنے سے پہلے یہ ضرور چیک کریں کہ آیا یہ عمل قانون کے مطابق ہے یا نہیں؟ مذہبی، لسانی، علاقائی، صوبائی، قبائلی، شہری، دیہی یا کسی اور طرح کے تعصب کو ہوا نہ دیں۔ کیونکہ کسی منفی اور بے سرو پا مہم سے قومی وحدت کو نقصان پہنچتا ہے اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بڑی مشکل سے سندھ میں کچھ چین نصیب ہوا ہے اس کو قائم رہنے دیں۔


جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں