پیپلز پارٹی اور 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی

0
97

تحریر: امتیاز مغیری

پیپلز پارٹی کے قیادت وفاقی وزرا وزیراعلی سندھ سمیت اراکین صوبائی قومی اسمبلی سینٹر اور رہنما آج 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی تقریب میں، مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو پر دلائل دیتے نظر آرہے ہیں۔

مسلسل اقتدار میں ہوتے ہوئے آئین پر عملدرآمد صفر نظر آتا ہے سندھ حکومت اور وفاق میں اتحادی ہوتے ہوئے غیر آئینی عمل معاملات پر ایک لمبی خاموشی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے تو جلد جمہوریت اور کی آئین بحالی کے نام سے اپنی احتجاجی تحریک کو لیکر سندھ پنجاب بارڈر پہنچ جاتی ہے اور دھمکی دیتی نظر آتی ہے کہ آئین پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے جس سے وفاق کو خطرات درپیش ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی نکل گئی تو صورتحال خراب ہوگی۔

اقتدار میں آکر ایسا لگتا ہے کہ ان کے اصل مقاصد آئین کی بحالی نہیں بلکہ مطالبہ شراکت اقتدار رہنا ہے۔ موجودہ دور اقتدار ہی کو دیکھیں لیں جائزہ خود پیپلزپارٹی لے آئین کی بالادستی اور خود عمل کرنے میں وہ مکمل ناکام نظر آتے ہیں لیکن ہر شعبہ زندگی سے چند سلیکٹڈ افراد کے ساتھ میچ فکس کرکے کھیلنے کو جمہوریت اور آئین کے تحفظ کے ساتھ ملک پاکستان میں سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں قانون سازی کے دعویدار بھی ہیں۔

ادب سے محترم سینٹر رضاربانی کی جذباتی تقاریر اور انرجی بھی اس وقت آرام میں ہے اگر بولتے بھی ہیں تو ماضی کی مثالیں دیکر حال پر وہ بھی خاموش ہیں وہ کیوں؟ پیپلزپارٹی کی قیادت اس نوجوان بلاول کے پاس ہے جس کو کریانے کی دوکان چلانے کا بھی تجربہ نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی جمہوری جہدوجہد کی ہے، آئین کے پاسداری کس طرح کریں گے، بس موروثیت کے تحت وہ پارٹی لیڈر بن کر واہ واہ اور آداب آداب سن کر سفر کر رہے ہیں۔ عوام میں جائیں غیر جانبدار سروے کروائیں تو انہیں کوئی لیڈر تسلیم نہیں کرے گا نہ کررہا ہے، ہاں ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو کی الگ تاریخ ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اب 1973 کے آئین میں جمہوریت کے جو تقاضے ہیں وہ انہیں اپوزیشن میں یاد آتے ہیں۔ حکومت میں ہوتے ہوئے ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح پارٹی اور حکمرانی کرتے ہیں جس نے اختلاف کیا پارٹی سے فارغ۔ اس آئین میں انسانی حقوق بھی ہیں اظہار رائے کی آزادی بھی ہے جس کا ذکر سیمینار میں ہوتا ہے باقی جس نے اخبار، ٹی وی میں سچ لکھا خبر دی اس پر دو تین وزرا، میشر اور ان کے پالے ہوئے افراد چھوڑ دیتے ہیں۔ جس نے انسانی حقوق کی بات کی اسے بھی آپ کی حکومت میں حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اپوزیشن کو دشمن سمجھ کر ان کے آئین میں دیے گئے حقوق اور کردار تک تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 1973 کے آئین میں اپوزیشن کا رول صرف پیپلز پارٹی کے اپوزیشن میں ہونے پر ہی تسلیم ہوگا اور اس حصے پر عملدرآمد بھی۔ اپوزیشن کے خلاف کیسز بنانا ایوان کے اندر ان کی آواز دبانا جمہوریت کے مطابق اپوزیشن کی قائمہ کمیٹیوں کی چئیرمین شپ بھی حکومتی افراد کو دینا۔ کیا بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کی جمہوری روایات یہ ہیں۔ یہ تو ڈکیٹر شپ کی اعلی مثال ہے، کہاں ہے 1973 کا آئین بس ایک بک میں جس پر سیمینار میں جذباتی تقاریر ہوسکتی ہیں اور اچھے مقرر سینٹر رضاربانی ہیں۔ جن کو سینیٹ کی ٹکٹ فریال تالپور دیتی ہیں اور بلاول ہائوس سے ان کی تصویر بھی جاری کی جاتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں