لندن سے مدینہ تک

0
165

تحریر: مسعود عثمانی

کل جب روضہ رسولؐ میں ہونے والی بدتمیزی دیکھی تو کچھ لکھنے کو دل ہی نہیں کررہا کیونکہ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ جس جگہ پر آنسو نہیں تھمتے وہاں ایک گندی سوچ نے ایسا تماشہ لگا دیا ہے کہ اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا واقعی یہود و نصار اپنے مقصد میں کامیاب ‏ہوگئے ہیں؟

آخر کونسی ایسی طاقت ہے جس نے ایک طبقے کو کُتے سے بھی بدتر بنا دیا ہے اور جس کو بھونکتے وقت پتا نہیں چلتا کہ کون سی جگہ ہے لیکن یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ن لیگ یہ سب کچھ کیسے برداشت کررہی ہے اور کب تک برداشت کتی رہے گی۔ کیا آپ کے پاس کوئی ایسی پالیسی ہے کہ آپ پوری دنیا میں اپنا ‏لگوانے سے روک سکیں؟۔ جی بلکل نہیں کیونکہ آپ سب کو معلوم ہے کہ سو سیٹیں پکی ہیں۔ جن میں سے ساٹھ 70 ایسی ہیں جہاں ٹکٹ ہولڈر کو جیتنے کے لیے گھر سے نکلنے کی بھی ضرورت نہیں اور یہی وجہ ہے کل شاہ زین بگٹی نے آئین شکن سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کا گریبان تو پکڑوا دیا لیکن آپ کے کسی رکن کی ہمت نہیں ہوئی کہ شیخ رشید، عثمان ڈار یا شہباز گل کا گریبان پکڑنے کے لیے کوئی گھر سے نکلتا، بس جب جلسہ کرنا ہوتا ٹکٹ ہولڈر 30، چالیس ہزار بندے لے کر آجاتے ہیں اور کہانی ختم۔

لیکن اب سیاست کا رخ بدل چکا ہے یہ 30 چالیس ہزار بندہ آپ کو سوشل میڈیا پر چاہیے، ہر حلقے میں چاہیے اور مزید جوتے کھانے سے بچنے کے
‏کے لیے اتنے ہی شرافت دکھائیں جتنی آپ کا وُوٹر برداشت کرسکے۔ نہیں تو پوری دنیا میں صرف چور بن کر ہی نظر آئیں گے، جب سے متحدہ کولیشن حکومت بنی ہے ہر متحرک کارکن یہی کہہ رہا ہے کہ سوشل میڈیا ری آرگنائز کریں، مفاہمت اور برداشت کے بجائے کم از کم ایک جواب دینے والی ٹیم ہی بنادیں جو آپ ‏کو کم از کم عمرہ تو عزت سے کرنے دیں اور اگر دوبارہ کبھی سابق وزیر اعظم نواز شریف ائیرپورٹ پہنچے تو کسی سبز جھنڈے کا انتظار نا کرے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں