فاطمہ بھٹو۔۔۔۔ کنواری شہزادی

0
164

خواب اور خیال:  آغا نیازمگسی

بھٹو خاندان کی تاریخ یا پس منظر اور انجام بہت ہی بھیانک اورعبرت ناک ہے۔ ان کے پاس دولت، عزت اور شہرت بہت زیادہ رہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ لوگ راحت اور سکون سے محروم رہے ہیں۔ فاطمہ بھٹو کا تعلق اسی بھٹو خاندان سے ہے۔ فاطمہ کے دادا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو پھانسی چڑھ گئے ان کی اس سزائے موت کو آج تک جمہوری قوتوں  نے تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کو عدالتی قتل کا نام دیا گیا ہے۔ ان کی موت کے کچھ عرصہ بعد فاطمہ کے چچا اورذوالفقارعلی بھٹو کے چھوٹے صاحبزادے میر شاہ نواز بھٹو کو فرانس میں ان کی بیوی کے ہاتھوں زہر کھلا کر قتل کر دیا گیا۔ جب 1993 میں فاطمہ بھٹو کی پھپو اور ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی  محترمہ بینظیر بھٹو دوسری بار پاکستان کی وزیراعظم بنیں توان کے دور میں 1996 میں فاطمہ کے والد سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے بڑے صاحبزادے اور وزیراعظم بینظیر بھٹو کے دور میں اس کے بھائی میرمرتضی بھٹو کو کراچی میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی دن دہاڑے راولپنڈی میں انتخابی جلسہ عام سے واپسی پر قتل کر دیا گیا۔ یہ سب سانحے فاطمہ بھٹو نے دیکھے اور صدمے برداشت کیئے۔ خود فاطمہ بھٹو کی زندگی بھی دکھوں اور المیوں کی کہانی کا ایک مجموعہ ہے۔

فاطمہ بھٹو 29 مئی 1982 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اس وقت پیدا ہوئی جب اس کے والد میر مرتضی بھٹو وہاں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ابھی فاطمہ بمشکل ایک سال کی عمر کو پہنہچی ہوگی کہ اس کی والدہ فوزیہ اس کو اور اس کے والد میر مرتضی بھٹو کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے علیحدگی اختیار کرکے امریکہ چلی گئی۔ فوزیہ کی علیحدگی کے بعد مرتضی بھٹو نے اپنی ایک سالہ معصوم بیٹی فاطمہ کو ماں اور باپ دونوں کا پیاردیا۔ تعلیم اور تربیت شروع کی فاطمہ 4 سال کی عمر کی ہوئی تو اس کے والد میر مرتضی بھٹو نے شام کے شہر دمشق کی ایک خوب صورت اور مشہور ڈانسرغنوی پرفریفتہ ہوکران سےنکاح کرلیا۔ غنوی نے کمال کرتے ہوئے فاطمہ بھٹو کو حقیقی ماں کا پیاردیا۔ فاطمہ نے ابتدائی تعلیم دمشق میں حاصل کی۔ 1993 میں غنوی بھٹو، فاطمہ اور ذوالفقار جونیئر کے ہمراہ پہلی بار پاکستان آئیں۔ فاطمہ نے اس دوران شاعری بھی شروع کردی اور 2004 میں کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک امریکہ سے گریجویشن کیا۔ 2005 میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹڈیز سے ” سائوتھ ایشین ” گورنمنٹ اور سیاسیات میں ماسٹرزکیا۔ فاطمہ نہایت ذہین طالبہ تھیں وہ بہت اچھی پوزیشن کے ساتھ تعلیمی مدارج طئے کرتی رہیں۔

 پاکستان واپسی پر فاطمہ بھٹو نے پاکستان کے سب سے بڑے اردو اخبار روزنامہ جنگ میں کالم نگاری شروع کی اور ساتھ میں شاعری کا شغل بھی جاری رکھا۔ انہوں نے اس دوران امریکا اور برطانیہ کے اخبارات میں بھی کالم نگاری شروع کردی۔ فاطمہ بھٹو نے سیاست کے بجائے ادب اور صحافت کا شعبہ اپنا لیا۔ سیاست سے دور رکھنے میں ان کی سوتیلی لیکن حقیقی ماں سے زیادہ مخلص غنوی بھٹو نے دور رکھا اس خدشے اور خوف کے باعث کہ سیاست میں آنے کے بعد فاطمہ بھٹو کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ فاطمہ بھٹو ادب اور صحافت دونوں میں کامیاب اور بہت مقبول رہیں۔ شعر و ادب کے شعبے میں فاطمہ بھٹو کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا ہے کہ وہ صرف 15 سال کی عمر میں صاحب دیوان خاتون شاعرہ بن گئیں۔ ان کا یہ شعری مجموعہ   Whispers of the Desert یعنی” صحرا کی سرگوشیاں ” آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے1997 میں شایع ہوا۔ ان کی دوسری کتاب  آزاد کشمیر اور خیبرپختون خوا صوبے کے 8 اکتوبر 2005 کے ہولناک زلزلے کے موضوع پر شایع ہوئی جبکہ ان کی تیسری کتاب Songs of Blood and Swor شایع ہوئی ۔ فاطمہ کی یہ کتاب بہت مقبول اور متنازع بھی رہی کیوں کہ اس میں انہوں نے اپنی پھوپھی محترمہ بینظیر بھٹو پر سخت تنقید بھی کی تھی۔ دنیا کے کئی ممالک کے اخبارات اور رسائل نے ان کی اس کتاب پر تبصرے کیئے۔  فاطمہ نے ایک ناول بھی لکھا لیکن ان کےناول کو پذیرائی نہ ملی۔ وہ آج کل قیدی خواتین کی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں شاید اسی وجہ سے نہ صرف انہوں نے کالم نگاری اور شاعری کو فی الحال التواء میں ڈال دیا ہے بلکہ وہ تجرد کی زندگی گزار رہی ہیں یعنی ابھی تک شادی بھی نہیں کی ہے۔ اس وقت ان کی عمر 38سال کی حد کو عبور کر چکی ہے لیکن جیون ساتھی یا ازدواجی زندگی کے حوالے سے ان کی کوئی خبر اور اطلاع نہیں ہے۔ دنیا میں ایسی کافی مثالیں ہیں کہ انسانیت کی خدمت کرنے میں خواتین اتنی مصروف ہوگئیں کہ انہوں نے شادی کا سوچا ہی نہیں ان میں دنیا کی پہلی لیڈی ڈاکٹر ایلزبیتھ بلیک ویل بھارت میں، مدر ٹریسا پاکستان میں، مادر ملت فاطمہ جناح اور پاکستان ہی میں جذام کے مریضوں کا علاج کرنے والی جرمن ڈاکٹر رتھ فاو قابل مثال ہیں۔ اب تو ان کی صحت بھی کافی گرچکی ہے اور مزید گرتی جا رہی ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان کے بھائی ذوالفقار بھٹو جونیئر نے بھی نہ صرف شادی نہیں کی ہے بلکہ ان کی چال ڈھال سے لگ ایسا رہا ہے کہ وہ شادی کا ارادہ ہی نہیں رکھتے۔ ذولفقار جونئیر کے انداز اور لائف اسٹائل سے اس قول کو تقویت ملتی ہے کہ “عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں” وہ اپنی والدہ کی طرح ڈانسر بن گیا ہے جبکہ فاطمہ اپنے والد کی طرح مضبوط اعصاب کی مالک ثابت ہوئی ہیں۔ فاطمہ بھٹو کے شعری مجموعے سے ان کی اردو میں ترجمہ شدہ ایک نظم یہاں بطور نمونہ قارئین کی نذر کی جا رہی ہے جس میں انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کے لحاظ سے کمال کر دیا ہے۔ ان کی یہ نظم آج سے 22سال قبل کی ہے مگر اس کے مطالعے سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ نظم انہوں نے آج کے حالات کے مطابق کہی ہے اور انہوں نے اس نظم میں جس ذہانت و بلوغت کا مظاہرہ و تجزیہ کیا ہے۔ اس پر بے اختیار مسلسل واہ واہ  کرنے کو جی  چاہ رہا ہے ۔

آزاد نظم

پاکستان اب ایک بھوتوں کی بستی ہے

وہ ہر طرف ہیں  ہر جگہ

قاتل اور قتل ہونے والے، دونوں

مسجدوں میں امام بارگاہوں میں بازاروں میں سڑکوں پر

گھروں میں بسوں میں

ان کی گنتی نہیں کی جا سکتی

ہم لاشوں پر زیادہ دیر تک نظریں جمائے بیٹھے نہیں رہ  سکتے

بس اتنی دیر تک،  کہ یہ اطمینان کرلیں

جس وجہ سے ان کو قتل کیا گیا

وہ ہمارے قتل کی وجہ نہیں ہو سکتی

وہ کچھ اور ہوگی

ان سب قتال کا ذمہ دار کون ہے

وہ بھی بھوت ہیں دوسرے بھوت

ہمیں نسیان کی بیماری ہے

الزام نہ دینا پولیس کو

ریاست غلطیوں سے ماورا ہے

دہشتگردوں کا نام نہ لینا  اس میں بہت خطرہ ہے

یوں بھی واردات کرکے وہ غائب ہو چکے ہیں

آئیے اچھی اچھی باتیں سوچیں

ہم منہ پر پٹی باندھ کر بولنا سیکھ لیں گے

ہم تو اب سوچتے بھی اشاروں کنایوں میں ہیں

سیکھ جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ دیکھنا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کو  جو صاف نظر آ رہا ہے

اور جو نظر نہیں آ رہا

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں