فرمان قائداعظم کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے

0
448

تحریر: ذیشان وحید بھٹی


کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے عوامی سیاستدان اور دانشور اکثر اوقات اپنی تقریروں و تحریروں میں قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ قول دہراتے رہتے ہیں لیکن جب بھی ان سے یہ پوچھا گیا کے یہ ارشاد انہوں نے کب اور کس موقع پر فرمایا تھا تو جواب ملتا ہے کہ جی اپنے آخری ایام میں کوئٹہ میں اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے جناح صاحب نے یہ کہا تھا ۔ لیکن مقام حیرت ہے کہ اخبار نویسوں کے اس اہم ترین ہستی نے اس وقت کے اہم ترین مسئلے پر یہ انتہائی اہمیت کی خامل سوچ کا اظہار کیا اور کسی اخبار نویس نے اسے اپنے اخبار کی زینت نہ بنایا؟۔


جب کے اس کے برعکس 18 جون 1947ء کو اپنے شروع کرتا اخبار “پاکستان ٹائمز “یہ قائد اعظم کا یہ پالیسی بیان شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے ریاستوں کے بارے مسلم لیگ کی پالیسی واضح کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ‘ریاستیں خودمختاری کا انتخاب کر سکتی ہے’ کے سامنے صرف الحاق پاکستان یا ہندوستان کے راستے ہیں نہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے یا نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں دفاعی اور معاشی لحاظ سے کشمیر کی ریاست پاکستان کے لیے اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ اس کو پاکستان کی شاہ رگ سے تشبہیہ دی جاسکتی ہے لیکن اس کو بغیر کسی مستند حوالے کے قائداعظم سے منسوب کرنے کے اس عمل سے یہ دلیل پیش کرنے والے کی سوچ اور فکر اور اخلاقی معقولیت کے بارے میں کوئی سوالات ابھرتے ہیں اور دراصل ان کی طرف سے دیگر سیاسی معاملات کے بارے میں دیے جانے والے بیانات بھی مشکوک ہو جاتے ہیں۔


اگر یہ دلیل پیش کرنے والے معززین اور شرفاء اس کو قائد اعظم سے منسوب کرنے کی بجائے سیدھے یہ کہہ دیں کے چونکہ کشمیر پاکستان کے لیے شاہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے ہم اس کا پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں تو دلائل پیش کرنے کا زیادہ معقول طریقہ ہوگا تاہم آئیے پاکستان کے لیے کشمیر کی شاہ رگ جیسی خثیت کا بھی تجزیہ کر لیتے ہیں کہ اس میں الحاق کا پہلو کہاں سے نکلتا ہے۔


جہاں تک پاکستان کی معشیت اور دفاع کا معاملہ ہے کشمیر واقعی پاکستان کے لیے شاہ رگ قرار دی جا سکتی ہے لیکن اگر آپ سامراجی اور غاصبانہ طرز فکر کا شکار نہیں ہیں تو آپ کو اس بات سے اختلاف نہیں ہوگا کہ کسی ملک کو یہ حق قطعاً حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے دفاع یا خوشحالی کے لئے دوسرے پر قبضہ جمالے۔ کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہی سہی لیکن ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ کشمیر صرف ان دریاؤں کا نام نہیں جو پنجاب کی طرف بہتے ہیں اور جن پر پاکستان کی معیشیت کا انحصار ہے اور نہ ہی کشمیر فقطہ ان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے جہاں جگہ جگہ بھارتی و پاکستانی فوجوں نے مورچے بنارکھے ہیں اور نہ ہی کشمیر ان جنگلوں اور وادیوں کو کہا جاتا ہے جہاں طرح طرح کے خزانے پوشیدہ ہے اور جن کی لکڑی سے بھارت و پاکستان کے کارخانہ دار اور تاجر لاکھوں کا منافع کماتے ہیں بلکہ ان دریاؤں کے کناروں پر، بہاروں کے دامن میں ،اور وادیوں کے گردونواح کل ملا کر بارہ ملین یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ انسان بھی پائے جاتے ہیں۔ جو اس وقت سے اس زمین پر آباد ہے جب پاکستان کا نام و نشان بھی نہیں تھا کشمیر بارہ ملین انسانوں کا وطن ہے جس طرح پاکستان یہاں 22 کروڑعوام کی ملکیت ہے کشمیر میں بسنے والے کشمیری کسی بھی طرح سے پاکستان میں بسنے والے انسانوں سے کم تر نہیں ہے اور ان کو وہ تمام حقوق حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ جو کسی بھی دوسرے ملک کے انسانوں کو حاصل ہوتے ہیں اور ان حقوق میں بنیادی ترین حق کا نام ہے حق آزادی اور اگر کوئی بھی طاقت اس کا تعلق پاکستان یا بھارت کے حکمران ٹولے سے ہو یا کشمیر کے کٹھ پتلی حکمرانوں سے اگر وہ کشمیریوں کے اس بنیادی حقوق کو نظر انداز یا پامال کر کے کشمیریوں کی شہ رگوں کو کاٹ کر ان پہاڑوں یا دریاؤں پر قبضہ جمانے کی کوشش کرے گی۔ تو ظاہر ہی ہے کہ اسے کشمیر کے لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس صورت میں اگر کشمیریوں پر جبر بڑھایا گیا تو یہ خود اپنی شاہ رگ کاٹنے والی بات ہو گی۔ لہذا اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا کہ اس شاہ رگ کو کشمیر پر کسی بھی طریقے سے یا بہانے سے قبضہ کرکے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اس کو محفوظ رکھنے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ کشمیر کے عوام کے حق آزادی کی غیر مشروط حمایت کی جائے جس کی پاکستان کے حکمران طبقوں سے امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ خود اپنے کو غلام بنائے ہوئے ہیں اور ان کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں لیکن پاکستان کے عوام دوست حلقوں اور جماعتوں سے اس کی امید رکھی جاسکتی ہے کے وہ کشمیریوں کی آزادی کی غیر مشروط حمایت کر کے کشمیر اور پاکستانی عوام کے درمیان موجود رشتوں کو برابری کی بنیاد پر گہرا اور مضبوط کر کے ایک ایسے مستقبل کی بنیاد رکھیں گے جس میں دونوں ملکوں کی عوام آپس میں اچھے دوستوں اور ان ہمسائیوں کی طرح رہیں گے۔


کشمیر کو پاکستان کی شاہ رگ کہہ کر اس کو قابو میں رکھنے کے لیے سیاسی اور فوجی حربہ استعمال کرنے کے چلن سے یہ دلیل پیش کرنے والوں کی فکر کے بارے میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ وہ قوموں کی آزادی کے جمہوری حقوق کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنے لئے ضروری اور اہم چیزوں کو جبراً اپنے قبضے میں رکھنے کی اسی روشں پر چلنے کے قائل ہیں۔ جس پر چل کر سامراج اور غاصب دوسرے ملکوں کو اور اپنے عوام کو لوٹنے آئے ہیں یا اس جگیردارنہ فکر کی زد میں ہیں جس کے تحت جاگیردار و وڈیرے کسی خوبصورت لڑکی کی خواہش کا شکار ہو کر اسے ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے بنا سنوار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے اس کے جذبات و احساسات یا خواہشوں کا غلا گوتٹتے ہوئے اسے اپنے قبضہ میں رکھتے ہیں اور اسے محبت کا نام دیتے ہیں ۔کیا یہ محبت ہے یا پرلے درجے کی ہوسناکی۔


وہ زمانے گزر گئے جب کسی فرد یا قوم کو اس کی مرضی یا امنگوں کے بغیر غلام بنا کر رکھا جاتا تھا ۔غلامی کے اس ادارے اور چلن کے خلاف خود اسلام نے چودہ سو سال قبل عرب میں جدوجہد کا آغاز کامیابی سے کیا تھا۔ کشمیری عوام بھی آج ہی کے عہد میں اور گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے ساتھ رہے ہیں اور اس عرصہ میں ان کو پاکستان کے حکمرانوں کے کشمیر کے ساتھ پیار کا پوری طرح اندازہ ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں آج آزاد کشمیر کے عوام کی بڑی اکثریت پاکستان کے موجودہ ڈھانچے کا حصہ بننے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے ڈھانچے میں آئے روز جمہوریت، مساوات اور انصاف کی قدروں کو پامال کیا جاتا ہے اور 22 کروڑ عوام حکمرانوں کی بے رحم غلامی میں جھکڑے ہوئے ہیں۔ جہاں پہلے ہی سندھی، بلوچی اور پشتون پنجابی غلبے کے خلاف قومی جدوجہد کر رہے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں