سپریم کورٹ سے اسٹیل ملز ملازمین کو نکالنے کی اجازت مل گئی، اسد عمر کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

0
624

کراچی: (رپورٹ: مدثر غفور) آج کل سوشل میڈیا پر وفاقی ‏وزیر اسد عمر کی سپریم کورٹ سے اجازت لے کر اسٹیل ملز ملازمین کو نکالے جانے کی وڈیو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر وائرل ہے جس کی لاکھوں شئیرنگ ہوچکی ہے اور تقریبا ایک کروڑ سے زائد بار دیکھی جاچکی ہے۔ وڈیو میں اسد عمر 2 دسمبر کو دنیا نیوز کے پروگرام ‘نقطہ نظر’ میں سینئیر صحافی مجیب الرحمن شامی کے اسٹیل ملز کو چلانے اور ملازمین کو نکالنے کے سوال پر جواب دیتے ہوئے دعویٰ کررہے ہیں کہ ‘فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تھا سپریم کورٹ سے حکومت کو اجازت مل گئی ہے تو اسی فیصلے پر عمل درآمد کررہے ہیں’۔
‘اسد عمر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے اسٹیل ملز کے ملازمین کو جبری برطرف کرنے کی اجازت مل گئی ہے’۔ جبکہ حقیقت میں سپریم کورٹ میں زرداد عباسی پروموشن کیس ابھی تک زیر سماعت ہے۔

معزز چیف جسٹس نے پروموش کیس سے متعلق 12 مارچ کو پروموشن سے متعلق ریمارکس دِیتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کلعدم کردیا تھا۔ چیف جسٹس کے ریمارکس کو بنیاد بناکر اسٹیل ملز انتظامیہ اور وزارت صنعت و پیدار 9,350 اسٹیل ملز ملازمین کو برطرف کرنے کی اجازت لینے سپریم کورٹ پہنچ گئی تھی جس پر 16 جولائی کو سماعت کے موقع پر ‘معزز چیف جسٹس نے اسٹیل ملز انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ملز سے متعلق بنایا گیا منصوبہ صرف تباہی ہے، زیادہ ہوشیاری اسٹیل ملز انتظامیہ کے گلے پڑ جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان اسٹیل ملز تمام ملازمین کو نہیں نکال سکتی۔ حکومت سے اسٹیل ملز کا مجوزہ پلان مانگا تھا اور سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے اسٹیل ملز سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی’ تب سے اب تک کیس کی سماعت نہیں ہوئی ہے۔

’16 جولائی کو سپریم کورٹ میں اسٹیل ملز ملازمین کی ترقیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اسٹیل ملز انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل ملز سے متعلق بنایا گیا منصوبہ صرف تباہی ہے، زیادہ ہوشیاری اسٹیل ملز انتظامیہ کے گلے پڑ جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان اسٹیل ملز تمام ملازمین کو نہیں نکال سکتی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ نے اسٹیل ملز کے تمام ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ نہیں کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملازمین کو اس طرح نکالا تو 5 ہزار مقدمات بن جائیں گے، ایسا ہوا تو اسٹیل مل چت ہوکر رہ جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا نہ ہو انتظامیہ کو برطرف کیے گئے ملازم ہی دوبارہ رکھنے پڑیں۔ جس پر وکیل نئیر رضوی نے کہا کہ انڈسٹریل ریلیشن قانون کی شق 11 آڑے آئے گی جس پر معزز جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قانون آپ کے آڑے نہیں بلکہ پورا آگے آئے گا۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے اسٹیل ملز سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔’

23 جون کو سندھ ہائی کورٹ میں دائر کیس میں پیپلز ورکرز یونین کی طرف سے اسٹیل ملز کے 9,350 ملازمین کو جبری برطرف کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران آٹارنی جنرل نے جسٹس عمر سیال کے روبرو تحریری جواب جمع کرا دیا تھا کہ اسٹیل ملز کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور سندھ ہائی کورٹ کیس نہیں سن سکتی، جس پر سندھ ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے تک ملازمین پاکستان اسٹیل کی درخواست سننے سے معذرت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی تھی۔

 6 جون کو شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافی کے اسٹیل ملز سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا ملازمین کے گھر ہیں ان کی 20 ارب 30 ارب کی پینشن ہے ان کا اربوں روپے کا بجٹ ہوگا سپریم کورٹ میں کیس لگا ہوا ہے جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوگا۔ آپ نے اچھا سوال کیا ہے حکومت اسٹیل ملز پر وہ فیصلہ کرے گی جو سپریم کورٹ اسٹیل مل ملازمین کیلئے فیصلہ کرے گی حکومت اس پر عمل کرے گی۔

8 جون سپریم کورٹ میں پاکستان اسٹیل ملز زرداد عباسی کیس نمبر 326 کے/2018 ڈی لسٹ کر دیا گیا ہے۔ کیس ڈی لسٹ کرنے کی وجہ بینچ میں سے ایک جج میں کورونا کی تشخیص تھی۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے نجی ٹی وی کے شو میں جھوٹ اور من گھڑت غلط بیانی کرتے ہوئے ملازمین کو جبری برطرف کرنے کا سارا الزام سپریم کورٹ اور معزز چیف جسٹس گلزار پر لگاتے ہوئے ان کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ 16 جولائی کو سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے اسٹیل ملز کا مجوزہ پلان مانگا تھا اور سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے اسٹیل ملز سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی تھی اور تب سے آج کی تاریخ 30 دسمبر تک کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں