تانیہ ایدروس اور ظفر مرزا کا استعفی

0
132

تحریر: اجمل ملک
ایڈیٹر نوشتئہ دیوار

چند انجینیئر ایک دیہاتی علاقے میں بچھی ہوئی تیڑھی ترچھی پائپ لائن سے تار گزارنے کی کوشش کررہے تھے لیکن کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود انہیں ذرا سی بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ ایک دیہاتی کچھ دور سے کھڑا ہوکر یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ ان انجینیئر کے قریب آیا اور ان انجینیئر سے کہا کہ آپ مجھے موقعہ دیں میں اس پائپ لائن سے تار کو گزار دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم باہر کے ملکوں سے پڑھے ہوئے ہیں اور پانچ کوالیفائیڈ انجینیئرتو یہ کام کر نہیں پا رہے تم یہ کیسے کرسکتے ہو جائو اپنا کام کرو۔

وہ دیہاتی چونکہ وہیں کا مقامی تھا لہذا اسے معلوم تھا کہ یہاں کی تیڑھی ترچھی لائنوں میں سے تار کو کیسے گزارا جا سکتا ہے اس نے کہا یہ میرا کام ہے۔ اس دیہاتی نے ایک چھوٹا سا چوہا پکڑا اور تار کو اسکی ٹانگ کے ساتھ باندھ کر چوہے کو پائپ لائن میں چھوڑ دیا تھوڑی ہی دیر میں چوہا تار سمیت پائپ لائن کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔

ہماری حکومتوں کا بھی یہی حال ہے ہم مقامی سطع پر حل ہوجانے والے مسائل کو بھی عالمی دانشوروں کے حوالے کر دیتے ہیں جنہیں مسلئے کا ادراک ہی نہیں ہوتا تو وہ اسے حل کیسے کر سکتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے کم سے کم لاگت میں بہتر سے بہتر چیز بنانے والے ہنر مند افراد یہاں موجود ہیں۔ ہمارے کاروباری افراد دنیا کے ذہین ترین لوگ ہیں لیکن اپنے وسائل اپنے لوگوں کے حوالے کرنے کے بجائے ہم حفیظ شیخ جیسے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جنہیں زمینی حقائق کا علم ہی نہیں ہوتا جب ٹماٹر ملک میں تقریبا 150 روپے کلو مل رہا تھا تو حفیظ شیخ صاحب فرما رہے تھے کہ 17 روپئے کلو ہر جگہ پر مل رہا ہے۔ اس جاہل کی اکڑ کا یہ عالم ہے کہ موصوف فرما رہے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کے پروگرام پر پورا عمل درآمد نہ کیا گیا تو میں استعفی دے دوں گا۔ ہمیں سوچنا چاہیئے کہ آخر ہم کب تک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ان سقراطوں اور بقراطوں کو اپنے اوپر مسلط رکھیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگوں سے جان چھڑوا کر اپنے ملک کے با صلاحیت اور مخلص لوگوں کو آگے لائیں۔

حال ہی میں انتقال کرجانے والے ہمارے ایک پارلیمنٹیرین جناب آیت اللہ درانی کا یہ جملہ پورے ملک میں بہت مشہور ہوا کہ “اس ملک کو اگر صرف چار اچھے انسان مل جائیں تو یہ ملک پوری دنیا میں اپنا مقام پیدا کرسکتا ہے”۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چار تو کیا اس ملک میں کم از کم چالیس لاکھ سے بھی زیادہ ایسے باصلاحیت اور مخلص افراد موجود ہیں جنہیں اگر موقعہ دیا جائے تو وہ اپنی انتظامی صلاحیتوں سے اس ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیں۔ ہم ان با صلاحیت افراد میں سے صرف 400 افراد کو میرٹ پر منتخب کرکے ملک ان کے حوالے کر دیں تو وہ صرف چند ماہ میں ہی ملک کو ترقی کی حقیقی راہ پر گامزن کر دیں گے لیکن اگر ہم نے اپنے ملک کو اسی طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ایجنٹوں کے حوالے رکھا تو یاد رکھیئے مایوسی، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اندیشہ ہے کہ بہت جلد ملک کے عوام اور صوبے آپس میں دست و گریباں ہوکر ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف دھکیل دیں گے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں