کورونا وائرس کا کوئی سائنسی وجود نہیں، کینیڈین شہری نے کورونا کے خلاف عدالتی جنگ جیت لی

0
245

تحریر: یاسررسول

کینیڈین شہری نے کرونا کے خلاف عدالتی جنگ جیت لی۔ کینیڈین صوبے البرٹا میں لاک ڈاون، ماسک پابندیاں اور زبردستی ویکسینیشن سب کچھ ختم کردیا گیا۔

اب وہاں کورونا کو سرکاری سطح پر “وباء”  کے بجائے عام “فلو وائرس” کہا جارہا ہے۔ خوف و ہراس عدالتی فیصلے کے بعد ازخود پورے صوبے میں ختم ہوگیا ہے کیونکہ کورونا کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

آخر ہوا کیا؟

دراصل کینیڈین شہری پیٹرک کنگ نے کورونا کے نام پر زبردستی لاک ڈاون، ماسک اور ویکسینیشن کے خلاف ہزاروں افراد سمیت احتجاج کیا تھا۔ حکومت نے سرکاری ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں کی پکڑ دھکر کی، جرمانے عائد کئے۔ پیٹرک کو بھی صوبائی وزیر صحت نے خلاف ورزی کے الزام میں 1200 ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔

پیٹرک جسے کورونا کی اصلیت کا مکمل علم تھا، وہ جانتا تھا کہ یہ وباء جعلی ہے اسکا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے، اسے موقع مل گیا اور وہ کورونا کو بے نقاب کرنے عدالت پہنچ گیا۔

پیٹرک نے عدالت میں موقف اپنایا کہ جج صاحب جب کورونا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے تو پھر کونسی پابندیاں؟ پیٹرک نے حکومت کو چیلنج کردیا کہ پہلے سرکاری وزیر صحت عدالت میں ثابت کرکے دکھائیں کہ کورونا کا کوئی سائنسی وجود ہے تو پھر میں جرمانہ بھی دوں گا اور ماسک بھی پہنوں گا۔

عدالت نے حکومتی وزیر صحت کو حکم دیا کہ آپ ثابت کریں کہ کورونا کا سائنسی وجود ہے۔ یہاں حکومت کے گلے میں ہڈی پھنس گئی۔

حکومتی وزیر نے ہار مانتے ہوئے اعتراف کیا کہ جج صاحب کورونا وائرس کا سائنسی طور پر کوئی وجود نہیں ہے کیونکہ ہم نے کبھی بھی اس وائرس کو آئیوسلیٹ ہی نہیں کیا۔ یعنی کورونا کو ثابت کرنے کا ہمارے پاس کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔

پیٹرک نے جواباً کہا کہ جج صاحب جب کورونا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے تو اس کے بہانے لاک ڈاون، ماسک کی پابندی اور پھر زبردستی ویکسینیشن کیوں؟۔

یاد رہے سائنس کی دنیا میں بغیر ‘آئیسولیٹ’ کیے، کسی بھی وائرس کی ویکسین بنانا سو فیصد ناممکن بات ہوتی ہے کیونکہ آئیسولیٹ کرنے کے بعد ہی وائرس کی اے بی سی کا پتا چلتا ہے کہ یہ کام کس طرح کام کرتا ہے، اس کے بعد ہی اسی حساب سے اس کے خلاف دوائی تیار کی جاتی ہے۔ جبکہ موجودہ کورونا کو کبھی آئیسولیٹ ہی نہیں کیا گیا ہے اس کی جو ویکسین بنائی گئی ہیں وہ سب مفروضوں پر مبنی ہیں، بنانے والے خود ہی دعویدار ہیں کہ یہ محفوظ ہے اور اپنے محفوظ ہونے کے لیے انہوں نے نامعلوم ماہرین کے نام پر رپورٹس جاری کروا رکھی ہیں۔ جنھیں کسی آزادانہ ادارے نے ایپرول ہی نہیں دیا۔ مختصرا یہ کہ سائنس کا بنیادی نقطہ وائرس کو آئیسولیٹ کرنے کی بات کو گول کرکے دنیا پر اقوام متحدہ کے زریعے سیاسی سائنس مسلط کی گئی ہے اور اس کی اڑ میں زبردستی سب کو ویکسین لگانے کا ایجنڈہ پورا کیا جارہا ہے۔

اس عدالتی کاروائی میں ‘سیاسی سائنس’ بری طرح بےنقاب ہوئی ہے۔ ایسی سائنس کا ‘حقیقی سائنس’ سے زرہ برابر بھی تعلق نہیں ہوتا۔ 

پیٹرک نے کہ جج صاحب جب سائنسدانوں نے وائرس کو کبھی آئیسولیٹ ہی نہیں کیا تو ہم کس لیے ماسک پہنیں، کیوں اپنا روزگار بند کریں اور کس مقصد کے لیے ویکسین لگوائیں اور انہوں نے ویکسین بنائی کیسے جبکہ انہوں نے
وائرس کو آئیسولیٹ تو کیا نہیں؟۔

دونوں طرف سے دلائل سننے کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ حکومت وائرس کی موجودگی ثبوت کرنے میں ناکام ہوگئی ہے لہذا پیٹرک کا جرمانہ ختم کرنے کے ساتھ صوبے سے کورونا کے نام پر لگائی گئی بے بنیاد پابندیاں بھی ختم کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد کینڈین صوبے البرٹا کی صوبائی حکومت نے سرکاری سطح پر بھی تمام کورونا پابندیاں ختم کردی ہیں۔

ایک بات تو طے ہے کہ اس خبر کے متعلق پاکستانی میڈیا، حکومت اور لفافی صحافی آپ کو ہرگز آگاہ نہیں کریں گے، آپ سے چھپائیں گے کیونکہ وہ آپ کو لاعلم رکھ کر ویکسینیشن کا ایجنڈہ پورا کرنے میں شیطان کی عالمی اسمبلی اقوام متحدہ کے ساتھ ہیں۔ لہذا یہ آپ کا اور میرا فرض بنتا ہے کہ اس خبر کو سب تک پہنچائیں۔

میرے خیال سے پاکستان میں بھی کورونا کے خلاف قانونی جنگ ہونی چاہیے۔ سنجیدہ وکلاء حکومت کو عدالت میں چیلنج کریں کہ کورونا کی موجودگی کے ثبوت دو ورنہ پابندیاں غیرقانونی ہیں۔ جب حکومت ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے گی تو سارے کورونا ڈرامے ازخود زمین بوس ہوجائیں گے پھر کینڈین حکومت کی طرح یہاں بھی عوام کو سکھ کا سانس مل جائے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں