حماس کے القسام طرز راکٹ حملے

0
401

ریسرچ تحریر: مہتاب خان

حماس غزہ سے اسرائیل کے خلاف القسام طرز (صاروخ القسام) کے راکٹ استعمال کرتی ہے۔ یہ راکٹ سادہ سے لوہے کے ہموار پترے کو ویلڈنگ اور خراد کی مدد سے لمبی ٹیوب کی شکل میں ڈھال کر تیار کیے جاتے ہیں۔ پرواز کے لیے ان میں کھانے والی چینی اور پوٹاشیم نائٹریٹ کھاد کا مرکب استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ وار ہیڈ کے طور پر بھی کھادوں اور گھریلو اشیا کے استعمال کی چیزوں سے تیار شدہ بارود استعمال ہوتا ہے۔

اس ایک راکٹ کی قیمت تیس امریکی ڈالر سے لے کر دو سو ڈالر تک ہوتی ہے۔ حماس کے اپنے بنائے یہ راکٹ ابتدا میں ایک کلو میٹر تک پرواز کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وقت کے ساتھ مسلسل بہتری سے اب یہ طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ 2006 میں پہلی بار راکٹساحلی شہر ایشکیلون تک پہنچا ۔ 2009 کے اوائل تک اشڈود اور بیر شیبہ کو راکٹوں نے نشانہ بنایا تھا۔ 2012 میں یروشلم اور اسرائیل کے تجارتی مرکز تل ابیب کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ جولائی 2014 میں ، شمالی شہر ہیفا کو پہلی بار نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان راکٹس کو ہوا میں تباہ کرنے کے لیے اسرائیل امریکی ساختہ جدید ترین “آئرن ڈوم” نامی میزائل سسٹم استعمال کرتا ہے۔ جس کی ایک بیٹری کی قیمت پچاس ملین ڈالر جبکہ اس میں استعمال ہونے والے ایک میزائل کی قیمت چالیس ہزار ڈالر سے زیادہ ہے۔ مختلف تجربات کے بعد حماس کے عسکری ونگ القسام برگیڈ نے آئرن ڈوم کو کا توڑ نکال لیا ہے۔ غزہ کی جانب سے کسی سمت واقعے آئرن ڈوم بیٹریز کی مزائل داغنے کی مجموعی صلاحت سے دوگنے یا اس بھی زیادہ راکٹ بیک وقت داغے جاتے ہیں۔ جن میں آدھے آئرن ڈوم میزائلوں کا نشانہ بن جاتے ہیں جبکہ باقی بچ کر تباہی مچا دیتے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل کے نقصانات کبھی میڈیا کی ذینت نہیں بنتے لیکن مہینوں بعد اسرائیلی پارلیمان اور تحقیقاتی رپورٹس میں اس تباہی کی خبر ملتی ہے۔

راکٹ حملوں کے دو فوری اثرات تو بہت واضع ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہزار دو ہزار ڈالر کے راکٹس کو تباہ کرنے لیے اسرائیل کو کئی ملین ڈالر خرچ کرنے پڑھتے ہیں۔ جس کی زیادہ دنوں تک اسرائیلی معیشت متحمل نہیں ہو سکتی۔
دوسرا اثر یہ ہے کہ راکٹ فائر ہوتے ہی پورے ملک یا بڑے خطے میں خطرے کے سائرن بج اٹھتے ہیں۔ جس سے زبردست خوف و ہراس پھیلتا ہے۔ صیہونی حکومت اور شہریوں میں خوف کی کیفیت اُن کے لیے مصیبت ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے انتفادہ کے بعد سے غزہ کی سرحد کے قریب یہودی بستیوں میں کوئی رہنے کو تیار نہیں۔ ان کا سب سے بڑا اثر اسرائیلی آبادی کے درمیان وسیع پیمانے پر نفسیاتی صدمے اور روز مرہ کی زندگی میں خلل پیدا کرنا ہے۔ غزہ کی پٹی کے قریب ترین اسرائیی یشہر ، سیردوٹ میں میڈیکل اسٹڈیز نے کم و بیش 50 فیصد کم عمر بچوں میں ذہنی تناؤ اور اسقاط حمل کی اعلی شرح کے بعد ہونے والے تناؤ کے بعد ہونے والے تناؤ کے واقعات کی بھی تصدیق کی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق
جنوبی اسرائیل کے کئی شہروں اور دیہاتوں میں راکٹ حملوں کے متوقع خطرے نے اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی زندگی کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے جو اس طرح کے حملوں میں رہتے ہوئے ایک ملین تک پہنچ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ 2009 میں نفسیاتی مدد اور بحالی فراہم کرنے والے سدرٹ ہوسن سنٹر کے ایک ترجمان نے بتایا کہ حملوں نے سدرٹ اور اس کے آس پاس کے بچوں اور بڑوں کی ذہنی صحت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

بچے خود ہی سونے سے، خود ہی رہنے سے، یہاں تک کہ اکیلے ٹوائلٹ جانے سے بھی ڈرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کے والدین ان کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں۔ بستر گیلا کرنا ان کی پریشانی اور عدم تحفظ کا ایک عام مظہر ہے۔ ان کے والدین بھی اسی طرح بے چین اور مایوس ہیں۔ پی ٹی ایس ڈی کے بارے میں بات کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ جب تک راکٹ گرتے ہیں تو روزانہ صدمے کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔ ہم صدمے کے بعد کے مرحلے میں بھی نہیں ہیں۔

اس کے جواب میں اسرائیل کا ہتھیار غزہ کی سولین آبادی کو نشانہ بناتا ہے۔

واضع رہے کہ حماس کے ان جوابی راکٹ حملوں کو نام نہاد حملوں کو اقوام متحدہ، یوروپی یونین اور اسرائیلی عہدیداروں نے دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے اور انھیں انسانی حقوق کے گروپوں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے جنگی جرائم سے تعبیر کیا ہے۔

ہمارے عرب دوستوں اور اُن کے حواریوں کو سخت اعتراض ہے کہ راکٹ سازی کی یہ ٹیکنیک حماس نے ایرانی ماہرین سے سیکھی ہے۔ اس لیے اسرائیل کے خلاف راکٹ حملے ناجائز ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں