چیف جسٹس کے احکامات ہوا میں، بااثر افسر نے اپنی ہی تشریح کرتے ہوئے کمپنی سیکریٹری کی دوبارہ غیر قانونی تقرری کردی

0
596

کراچی (مدثر غفور) پاکستان اسٹیل کے بااثر افسر انچارج اے اینڈ پی ریاض حسین منگی نے اسٹیل ملز کے متعلقہ قواعد و ضوابط اور سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اُڑا کر پاکستان اسٹیل ملز میں متنازعہ کمپنی سیکریٹری کی دوبارہ غیر قانونی تقرری کردی۔ محمد شفیق انجم نامی شخص کی ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے فورا بعد ہی دوبارہ پاکستان اسٹیل ملز میں کمپنی سیکریٹری کی حیثیت سے متنازعہ اور غیرقانونی طور پر تقرری کردی گئی۔

زرائع سے حاصل تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق محمد شفیق انجم 2018 سے پاکستان اسٹیل ملز کے کمپنی سیکریٹری کے عہدے پر کام کر رہے تھے اور پاکستان اسٹیل مل سروس رولز اور حکومت پاکستان کے سرکاری ملازمین سے متعلقہ مروجہ قوانین کے مطابق ملازمت کی عمر 60 سال تک پہنچنے کے بعد 6 اپریل 2021 کو ریٹائر ہوئے۔ پبلک سیکٹر کمپنیوں کارپوریٹ گورننس رولز 2013 کی شق 14 (4) میں دی گئی ہے وہ صرف میٹالرجیکل انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری کے حامل ہیں اور متعلقہ مطلوبہ قابلیت کے معیار پر پورا نہیں اُترتے لیکن انہیں خلاف ضابطہ دوبارہ کانٹریکٹ پر کمپنی سیکریٹری تعینات کردیا گیا۔

پبلک سیکٹر کمپنیوں کارپوریٹ گورننس رولز 2013 کی شق 14 (4) کے ذیل میں کمپنی سیکریٹری کے کردار اور اہلیت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ “کسی بھی شخص کو پبلک سیکٹر کمپنی کا کمپنی سیکریٹری مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ درج ذیل میں سے ایک نہ ہو۔ (الف) پیشہ ور اکاؤنٹنٹ کی ایک تسلیم شدہ باڈی کا رکن یا (ب) کارپوریٹ یا چارٹرڈ سیکریٹریوں کی کسی تسلیم شدہ باڈی کا رکن یا (ج) وہ شخص جو بزنس ایڈمنسٹریشن یا تجارت میں ماسٹر ڈگری رکھتا ہو یا ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعہ تسلیم شدہ یونیورسٹی سے قانونی گریجویٹ ہونے کے ساتھ کم از کم پانچ سال کا تجربہ رکھتا ہو”۔ جبکہ شفیق انجم پہلے ہی مطلوبہ تعلیمی قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے اس عہدے کے اہل نہیں تھے۔

6اپریل 2021 کو پاکستان اسٹیل مل ایڈمنسٹریشن اور پرسنل ڈیپارٹمنٹ کے قائم مقام ڈی جی ایم انچارج اے اینڈ پی کی طرف سے جاری کردہ لیٹر نمبر اے اینڈ پی/ ای ایس ٹی ٹی/کانٹریکٹ-سی ایس/2021/75 کے مطابق شفیق انجم کو 7 اپریل سے بغیر کسی اشتہار کے اور سکسیشن پلاننگ ایک سالہ کانٹریکٹ کی بنیاد پر ریٹائرمنٹ کے فورا بعد اسی عہدے پر دوبارہ تعینات کیا گیا ہے۔ قابل اعتماد ذرائع کے مطابق شفیق انجم کی ماہانہ تنخواہ 1 لاکھ 70 ہزار روپے اور دوسرے معاوضوں اور مراعات کے ساتھ دوبارہ تقرری کی گئی ہے۔

 

اس غیر قانونی تقرری میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، کابینہ سیکرٹریٹ، اسلام آباد کے ذریعے شائع کارپوریشنوں / خودمختار باڈیوں کی طرف سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کے سلسلے میں باب 5 ‘ایسٹاکوڈ’ کے ضابطہ 7.3 (2) اور 7.3 (3) کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ باب 5 ‘ایسٹاکوڈ’ کے اصول 7.3 (2) اور 7.3 (3) مندرجہ ذیل ہیں: “7.3 کارپوریشنوں / خودمختار باڈیوں میں ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت۔ (2) مذکورہ بالا ہدایات کے برخلاف یہ بات سامنے آئی ہے کہ کارپوریشنز / خود مختار اداروں نے صدر کی پیشگی منظوری حاصل کیے بغیر ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے بعد افراد کو دوبارہ ملازمت فراہم کی ہے۔ (3) لہذا یہ کہ اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ 60 سال کی عمر حاصل کرنے والے کسی بھی شخص کو صدر (وزیراعظم) کی پیشگی منظوری حاصل کیے بغیر ملازمت میں رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ (اتھارٹی: 23 جنوری 1985 کے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے او ایم نمبر 2/48/84-اے بی سی)”۔

مزید برآں  نہ صرف پاکستان اسٹیل آفیسرز سروس قواعد و ضوابط 60 سال بعد ایسی تقرریوں / دوبارہ تقرریوں کی اجازت نہیں دیتے ہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سو موٹو کیس نمبر: 24 آف 2010 (پی ایل ڈی 2011 ایس سی 277) وغیرہ میں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی خلاف ضابطہ  تقرری کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے مذکورہ کیس میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبوں کے چیف سیکرٹریوں کو یہ احکامات دیئے کہ وہ یقینی بنائیں کہ اگر کوئی سرکاری ملازم یا کوئی دوسرا فرد جس کو دوبارہ ملازمت دی گئی ہو۔ قانون کی دفعات کے معاملے میں بھی اس کے معاملے کی جانچ پڑتال کی جائے اور دونوں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ یقینی بنانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھانا چاہئے کہ دوبارہ کانٹریکٹ کی بنیاد پر ملازمت دوبارہ ملازمت متعلقہ قانون کی خلاف ورزی میں نہیں کی گئی۔

مذکورہ ملازم کی ملازمت سے ریٹائر ہونے کے فوری بعد ہی کمپنی سیکریٹری کے اسی عہدے پر دوبارہ تقرری پاکستان اسٹیل مل آفیسرز سروس رولز اور ضوابط کے مطابق نہیں ہے۔ یہ تقرری حکومت پاکستان نے کارپوریشنوں / خود مختار اداروں پر لاگو ایسے معاملات میں ‘ایسٹاکوڈس’ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے بھی خلاف ورزی ہے۔  مزید یہ کہ مذکورہ تقرری میں پبلک سیکٹر کمپنیوں کارپوریٹ گورننس رولز 2013 کی شق 14 (4) کے مطابق کمپنی سیکریٹری کے عہدے کے لئے موزوں شخص کا انتخاب نہیں کیا گیا اور پاکستان اسٹیل مل بورڈ اس غیر معمولی صورتحال سے بخوبی واقف ہے لیکن شفیق انجم کو ریٹائرڈ ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر دوبارہ تعینات کیا گیا ہے۔ زرائع کے مطابق مذکورہ شخص کو امریکی شہری عامر ممتاز چیئرمین پاکستان اسٹیل ملز بورڈ کی خواہش پر قواعد کے خلاف حمایت حاصل ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ماضی میں 60 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد کانٹریکٹ یا روزانہ اجرت کی بنیاد پر پاکستان اسٹیل مل کے ایگزیکٹوز کی اس طرح کی تقرریوں پر سپریم کورٹ کے فیصلوں اور’اسٹاکوڈس’ کی روشنی میں اس وقت کے وزارت صنعت و پیداوار کے عہدیداروں نے اعتراض کیا تھا اور اس طرح کے غیر معمولی طور پر دوبارہ ملازمت پر رکھے ہوئے افسران کو وزارت صنعت و پیداوار کے احکامات کے ساتھ برطرف کر دیا گیا تھا لیکن اس بار وزارت صنعت اور پروڈکشن کے عہدیدار 60 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد کانٹریکٹ پر کارپوریٹ سیکریٹری کی اس غیر معمولی اور غیرقانونی تقرری پر خاموش ہیں کیونکہ شاید غیر ملکی شہری عامر ممتاز کے سامنے وزارت صنعت و پیداوار بے اختیار ہے۔

 

حکومت کی پالیسی کے مطابق پاکستان اسٹیل مل کی بحالی تیز رفتار راستے پر ہے اور بورڈ کا اس میں اہم کردار ہے۔ اس طرح کے کسی متعلقہ تعلیمی قابلیت نہ رکھنے والے کمپنی سیکریٹری کی دوبارہ تقرری کے لئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سے پاکستان اسٹیل مل بورڈ کی حکمرانی کے عمل اور ایچ آر پالیسیوں پر کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان، وزارت صنعت و پیداوار اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کو محمد شفیق انجم کی پاکستان اسٹیل مل کے کمپنی سیکریٹری کے عہدے پر60 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے کے بعد مذید ایک سال کے لئے اس غیرقانونی تقرری کا نوٹس لینا چاہئے جو کہ مذکورہ ملازمت کا اشتہار دیئے بغیر ہوئی اور مذکورہ بالا قواعد کی خلاف ورزی بھی گئی ہے۔

ڈائریکٹر اے اینڈ پی لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ طارق خان نے جواب دینے سے معذرت کرلی۔ انچارج اے اینڈ پی ریاض حسین منگی کا کہنا تھا کہ پاکستان اسٹیل مل آٹونومس (خودمختار) ادارہ ہے اور اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ (روزنامہ جنگ اخبار 9 جون 2021)

https://jang.com.pk/news/939152?_ga=2.105587331.1685605056.1623254501-1816716939.1549703341

یاد رہے کہ پاکستان اسٹیل ملز وفاقی کارپوریشن ادارہ ہے جس کے سو فیصد حصص حکومت پاکستان کی ملکیت ہیں اس پر حکومت پاکستان اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے قواعد و ضوابط اور سپریم کورٹ کے احکامات کا پوری طرح اطلاق ہوتا ہے۔ 2016 میں سابق ڈائریکٹر اے اینڈ پی حامد پرویز کی ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ کانٹریکٹ پر تقرری سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے روک دی گئی تھی جبکہ شفیق انجم کارپوریٹ سیکریٹری کے لئے متعقلہ قابلیت بھی نہیں رکھتے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں