اسٹیل ملز جبری برطرف ملازمین کے اہل خانہ کا روزگار بچائو تحریک کو جاری رکھنے کا عزم

0
114

کراچی: پاکستان اسٹیل سے جبری برطرفیوں کے خلاف خواتین کیجانب سے جبری برطرف ملازمین کے روزگار بچائو تحریک کو آگے کیسے بڑھایا جائے کے عنوان سے  اسٹیل ٹائون میں کارنر میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔

پاکستانی مارکیٹ اسٹیل ٹاؤن پوسٹ آفس کے سامنے میدان میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، اس موقع پر رحمت، شمع، فوزیہ، فریداں، شمائلا دیگر نے کہا کہ پاکستان بنانے میں بھی خواتین کا بہت بڑا کردار ہے جس میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم لیاقت علی خان، بیگم جھان آراشاہ نواز، بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم نواز اسماعیل، خان بیگم شائستہ اکرام جیسی حریت پسند خواتین نے تحریک چلائی تھی۔

 اس وقت عمران خان نے جو ملازمین پاکستان اسٹیل سے واعدے کئے تھے ان کے برعکس روزگار چھین کر معاشی قتل کردیا ہے، بے روزگار کی وجہ سے ہمارے گھروں  کے چولہے بجھ گئے ہیں اور  فاقہ کشی کا عالم ہے، عمریں بڑھنے کی وجہ سے ہمارے مردوں کو کوئی بھی فیکٹری، کمپنی یا کوئی ادارہ رکھنے کو تیار نہیں ہے، وہ بھی وقت تھا جب پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو اپنے اوپر فخر ہوتا تھا آج ذلت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔

خواتین نے کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ معزز سپریم کورٹ میں کیس  کی تاریخیں نہیں لگ رہی ہیں جبکہ   ذیلی کورٹز میں بھی کوئی کیس سننے کو تیار نہیں ہے۔ کیا ہم محبت وطن پاکستانی نہیں ہیں ہمارے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے اتنے ظلم کے باوجود بڑے بڑے عہدوں پر  برجمان لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جب وزیر برائے صنعت و پیداور خسرو بختار اسٹیل مل کے دورے پر آئے تھے ہم لیڈیز اپنے بچوں کے ہمراہ ان کو اپنے دکھ درد سنانتے آئے تھے مگر اس نے بھی آمرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے چور گیٹ سے اندر چلاگیا۔ 31 دن سی او ہائوس کے سامنے دہرنا دینے کے باوجود کوئی بھی حکومتی نمائندہ ملازمین سے بات کرنے نہ آیا اس حکومت میں ہر طرف جنگل کا قانون بنا ہوا ہے کوئی ہمارے بچوں کی آہیں اور سسکیاں سننے کو تیار تک نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا اس معاشی قتل میں زیادہ تر نقصان 2010 میں ریگیولر ہونے والے ملازمین کا ہوا ہے جن کی تنخواہ بیس سے تیس ہزار روپے تھی، جن کے بچے دوسری یا پہلی جماعت میں زیر تعلیم ہے اور ان کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے، اپنے بچوں کا مستقبل بچانے کیلئے اس ظالم اور جابر حکومت کے خلاف خواتین ہی جدوجہد کرسکتی ہیں کیونکہ تاریخ میں عورت ہی اپنے بچوں کے حقوق کیلئے لڑی ہے اور لڑتی رہیں گی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں